غزل
تیری زلفوں کے بکھرنے کا سبب ہے کوئی
آنکھ کہتی ہے تیرے دل میں طلب ہے کوئی
آنچ آتی ہے تیرے جسم کی عریانی سے
پیرہن ہے کہ سلگتی ہوئی شب ہے کوئی
ہوش اُڑانے لگیں پھر چاند کی ٹھنڈی کرنیں
تیری بستی میں ہوں یا خواب طرب ہے کوئی
گیت بنُتی ہےتیرے شہر کی بھر پور ہوا
اجنبی میں ہی نہیں تو بھی عجب ہے کوئی
لئے جا تی ہیں کسی دھیان کو لہریں ناؔصر
دُور تک سلسلہ تاکِ طرب ہے کوئی
No comments:
Post a Comment