غزل
دل میں اورتو کیا رکھا ہے
تیرا ہی درد چھپا رکھا ہے
اِس نگری کے لوگوں نے
درد کا نام دوارکھا ہے
اتنے دکھوں کی تیز ہوا میں
دل کا دِیپ جلا رکھا ہے
وعدہِ یار کی بات نہ چھیڑو
ہم نے یہ دھوکہ کھا رکھا ہے
بُھول بھی جاؤ بیتی باتیں
اِن باتوں میں کیا رکھا ہے
چُپ چُپ کیوں رہتے ہو ناؔصر
روگ یہ کیادل کو لگا رکھا ہے
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@
انسان سے انسانیت کی پہچان مٹ گئی
اپنوں سے اپنائیت کی پہچان مٹ گئی
دھوکہ،فریبومکر سے کام چل رہا ہے
عاؔدل اب آدمیت کی پہچان مٹ گئی
No comments:
Post a Comment