Saturday, 28 July 2018

Bin Teray Zindgi ( Life Without You )



بِن تیرے  زندگی کی بات کیسے ہو
غم میں  تیرےخُوشی کی بات کیسے ہو

زخم جوبھی دیا ،ہم نے قُبول کیا عادل
مُحبتوں میں شکایت کی بات کیسے ہو



Thursday, 26 July 2018

Tera Ziker ( Your Love Talk )



جو دل تیرے ذِکر سے آباد ہوئے

دونوں جہاں کی  فکرسے آزاد ہوئے

ہر غم کو اپنامقدر سمجھ کے قبول کیا

تیری خوشی کے لئےہم نا شاد ہوئے

عاؔدل



Wednesday, 25 July 2018

Muhabbat Roog ( Love Difficulty)



محبت روگ ہے یارو

یہ دل کا سوگ ہے یارو

جسے سمجھے تھے خوشی عادل

 وہ غم کا سنجوگ ہے یارو




Friday, 20 July 2018

Khahish nahi rahi ( No Desire)


غزل

سرسبز اپنی کوئی خواہش نہیں ہوئی
وہ ہے زمینِ دل جہاں بارش نہیں ہوئی

روئے ہُوئے  بھی اُس کوکئی سال ہو گئے
آنکھوں میں آنسووں کی نمائش  نہیں ہوئی

دیوارودَر ہیں پاس،مگر اس کے باوجود
اپنے ہی گھر میں اپنی رہائش نہیں ہوئی

بابِ سُخن اب وہی مشہور ہو گئے
وُہ جن کےذہن سے کوئی کاوش نہیں ہوئی

رکھتے ہو اُنگلیاں،تو گِن کر بتاو تم
کس لمحے میرے واسطے سازش  نہیں ہوئی

اقبال ساجد



Thursday, 19 July 2018

Hum Wafa Kartay ( We Should pay Love )



غزل

دِل سے دِل کو نہ  جُدا کرتے
کاش ہم اُن سے وفا کرتے

 اپنے وجود کی نفی کرکے
تیری محبت میں فنا کرتے

بیٹھا کے اپنی آنکھوں میں
ساری دُنیا سے چھُپا کرتے

چڑھ جاتےہنس کے سولی پر
رسمِ محبت یوں  ادا کرتے

تیری خاطر چھوڑ کر دُنیا
تیری دُنیا میں  رہا کرتے

زندگی میں نہ ہوتا غم عاؔدل
تم کو نہ خود سے جدا کرتے

عاؔدل




Monday, 16 July 2018

Wafa Ka Ziker ( Loyalty Mention )


غزل

نہ فلسفہ نہ منطق کے مدرسوں میں ہے
دُرِ مراد  دِلوں کے سمندروں میں ہے

ذرا سی چوٹ پہ دل اِن کے ٹوٹ جاتے ہیں
بَلا کی قوّتِ احساس پتھروں میں ہے

وفا کے ذکر پہ ہوتے ہیں آپ کیوں حیران
یہ تذکرہ بھی محبت کے تذکروں میں ہے

اگر چہ آبلہ پا ہیں مگر ہے سفر جاری
یہ حوصلہ بھی فقط چند رمسافروں میں ہے

نہ تابِ دید نظر کو نہ دل میں قوت صبر
بڑا ہی کرب جُدائی کے منظروں میں ہے

ہر ایک شخص کامخلص ہر ایک شخص سے پیار
وفا کا نام ہمیشہ سے سَرپھروں میں ہے

وفا صدیقی 


Saturday, 14 July 2018

Dill Say Dill ka ( Heart Connection)



دل سے دل کا اب واسطہ  نہیں رکھنا
تو اب یہ طے ہے کہ رابطہ نہیں رکھنا

بچھڑ کے تجھ سے تمام عمر عاؔدل
ہم نےخود سے بھی رابطہ نہیں رکھنا



Sunday, 8 July 2018

Bahaar Tu Hai ( Spring Season )



تُو  نہیں تو کیا تیرا انتظار تو ہے
 ملی بہار نہیں،غمِ بہار  تو ہے

تیری نگاہِ ناز کا یہ کرشمہ ہے

دلِ ویراں  میرالالہ زار  تو ہے



   عاؔدل





Saturday, 7 July 2018

Meray Dard ki ( My Love Pain )



غزل

میرے درد کی یوں دوا ہو رہی ہے
وفا کر رہا ہوں جفا ہو رہی ہے

قضا زندگی میں ہوئی جو نماز
نِدامت کو سجدے ادا ہو رہی ہے

درِ دلکشاء پر جھکایا نہ سر کو
کرم دیکھئے کہ شفا ہو رہی ہے

یہاں نور و ظلمت کو دیکھا ہے یکجا
بہم رُخ سے زُلفِ روتا ہو رہی ہے

گلہ کیوں کریں یہ قضا کا کہ رمضان
قیامت جو پہلے بپا ہو رہی ہے

ایم رمضان ملک



Mian nahi Shair ( I am Not Poet )



کون کہتا ہے میں نہیں شاعر
آپ آئے ہیں، میں بھی آیا ہوں

اِ س کو چھوڑیں کہ شعر کس کے ہیں
اِن کو لکھ کر تو میں لایا ہوں




لئے آنکھوں میں دَم اپنا یہاں بیمار بیٹھے ہیں
مسیحا ہیں کہ دم سادھے ہوئے بیکار بیٹھے ہیں

لپکنا دوڑنا نرسوں کا کرتا ہے یہ غماّزی
"بہت آگے گئے باقی جو ہیں تیار بیٹھے ہیں" 



Thursday, 5 July 2018

Haseeno kay Tohfay ( Beauty Gifts )



تحفے نہ لے کےجا تو حسینوں کے واسطے
اِن کو تو اپنے پاس ہی اب میرے یار رکھ

تحفوں کے مستحق ہیں حسینوں کے والدین
"پیوستہ رہ شجر سےاُمیدِ بہار رکھ"

امیرالاسلام ہا شمی  




رات کا وقت بھی ہےاور ہے مسجد بھی قریب
اُ ٹھئے جلدی سے کہ پیغامِ عمل لایا ہوں

گھر میں فی الحال ہیں جتنے بھی پرانے جوتے
آپ بھی جا کر بدل لیں میں بدل لایا ہوں

امیرالاسلام ہا شمی 



Wednesday, 4 July 2018

Gham ki Dunia (Sorrow World )


غزل

غم کی دُنیا ملال کی دُنیا
آہ  اہلِ کمال کی دُنیا

تیرے حسن و جمال کی دُنیا
ماورائے خیال کی دُنیا

تیرا عالم نشاط کا عالم
میری دُنیا ملال کی دُنیا

اَب ہے اُن کے جمال سے منسوب
تھی جو اپنے خیال کی دُنیا

غم سے خائف نہ عیش کی محتاج
کاظمی اہلِ حال کی دُنیا

شفقت کاظمی



Bandgi ka natija (Prayer Result )


غزل

بندگی کا یہ نتیجہ سرِ محشر نکلا
ایک سجدہ کئی سجدوں کے برابر نکلا

جادہِ عشق میں رہتا ہے جو پتھر کی طرح
اُس کو ہر شخص لگاتا ہوا ٹھو کر نکلا

جانتا تھا رہِ عشق میں لُٹ جاوں گا
گھر سے نکلا تو میں یہ سوچ سمجھ کر نکلا

اضطرابِ دل ِ بیتاب سے یہ راز کھلا
غمِ دُنیا نہ تیرے غم کے برابر نکلا

اہل دنیا نے سر آنکھوں پہ بٹھا یا اُس کو
تیرا دیوانہ مقدّر کا سکندر نکلا

میرے اشکوں کی بھی اُس نے کوئی قدر نہ کی
جس کو آئینہ سمجھتا تھا وہ پتھر نکلا

میری منزل تو میرے پاوں کے تلے تھی لیکن
صرف دُنیا کو دِکھانے کو  سفر پر نکلا

مجھ کو دیوانوں نے صحرا میں یہ خوشخبری دی
وہ مجھے ڈھونڈنے بازار میں اکثر نکلا

آج اُس نے مجھے پھر اپنا کہا ہے نیّر
میرا اخلاص محبت کا سمندر نکلا

محمد صدیق نیّر


Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے