Friday, 20 July 2018

Khahish nahi rahi ( No Desire)


غزل

سرسبز اپنی کوئی خواہش نہیں ہوئی
وہ ہے زمینِ دل جہاں بارش نہیں ہوئی

روئے ہُوئے  بھی اُس کوکئی سال ہو گئے
آنکھوں میں آنسووں کی نمائش  نہیں ہوئی

دیوارودَر ہیں پاس،مگر اس کے باوجود
اپنے ہی گھر میں اپنی رہائش نہیں ہوئی

بابِ سُخن اب وہی مشہور ہو گئے
وُہ جن کےذہن سے کوئی کاوش نہیں ہوئی

رکھتے ہو اُنگلیاں،تو گِن کر بتاو تم
کس لمحے میرے واسطے سازش  نہیں ہوئی

اقبال ساجد



No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے