غزل
سرسبز اپنی کوئی خواہش نہیں ہوئی
وہ ہے زمینِ دل جہاں بارش نہیں ہوئی
روئے ہُوئے
بھی اُس کوکئی سال ہو گئے
آنکھوں میں آنسووں کی نمائش نہیں ہوئی
دیوارودَر ہیں پاس،مگر اس کے باوجود
اپنے ہی گھر میں اپنی رہائش نہیں ہوئی
بابِ سُخن اب وہی مشہور ہو گئے
وُہ جن کےذہن سے کوئی کاوش نہیں ہوئی
رکھتے ہو اُنگلیاں،تو گِن کر بتاو تم
کس لمحے میرے واسطے سازش نہیں ہوئی
اقبال ساجد
No comments:
Post a Comment