غزل
نہ فلسفہ نہ منطق کے مدرسوں میں ہے
دُرِ مراد دِلوں کے سمندروں میں ہے
ذرا سی چوٹ پہ دل اِن کے ٹوٹ جاتے ہیں
بَلا کی قوّتِ احساس پتھروں میں ہے
وفا کے ذکر پہ ہوتے ہیں آپ کیوں حیران
یہ تذکرہ بھی محبت کے تذکروں میں ہے
اگر چہ آبلہ پا ہیں مگر ہے سفر جاری
یہ حوصلہ بھی فقط چند رمسافروں میں ہے
نہ تابِ دید نظر کو نہ دل میں قوت صبر
بڑا ہی کرب جُدائی کے منظروں میں ہے
ہر ایک شخص کامخلص ہر ایک شخص سے پیار
وفا کا نام ہمیشہ سے سَرپھروں میں ہے
وفا صدیقی
No comments:
Post a Comment