غزل
بندگی کا یہ نتیجہ سرِ محشر نکلا
ایک سجدہ کئی سجدوں کے برابر نکلا
جادہِ عشق میں رہتا
ہے جو پتھر کی طرح
اُس کو ہر شخص لگاتا ہوا ٹھو کر نکلا
جانتا تھا رہِ عشق میں لُٹ جاوں گا
گھر سے نکلا تو میں یہ سوچ سمجھ کر نکلا
اضطرابِ دل ِ بیتاب سے یہ راز کھلا
غمِ دُنیا نہ تیرے غم کے برابر نکلا
اہل دنیا نے سر آنکھوں پہ بٹھا یا اُس کو
تیرا دیوانہ مقدّر کا سکندر نکلا
میرے اشکوں کی بھی اُس نے کوئی قدر نہ کی
جس کو آئینہ سمجھتا تھا وہ پتھر نکلا
میری منزل تو میرے پاوں کے تلے تھی لیکن
صرف دُنیا کو دِکھانے کو سفر پر نکلا
مجھ کو دیوانوں نے صحرا میں یہ خوشخبری دی
وہ مجھے ڈھونڈنے بازار میں اکثر نکلا
آج اُس نے مجھے پھر اپنا کہا ہے نیّر
میرا اخلاص محبت کا سمندر نکلا
محمد صدیق نیّر
No comments:
Post a Comment