غزل
رابط لاکھ سہی
قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے
وقت کی رفتا ر کے ساتھ
غم لگے رہتے ہیں
ہر آن خوشی کے پیچھے
دُشمنی دُھوپ کی
ہے سایہ دیوار کے ساتھ
کس طرح میں اپنی
محبت کی تکمیل کروں
غمِ ہستی بھی
شامل ہے غمِ یار کے ساتھ
لفظ چُنتا ہوں
تو مفہوم بدل جاتا ہے
جانےکیا خوف ہے جُرأت اظہار کے ساتھ
دُشمنی مجھ سے
کیئے جا مگر اپنا بن کر
جان لےلے میری
صیاد مگر پیار کے ساتھ
دو گھڑی آؤ مل
آئیں کسی غالؔب سے قتیلؔ
حضرتِ ذوقؔ تو
وابستہ ہیں دربار کے ساتھ