غزل
وہ میرے حال پہ
رویا بھی مُسکرایا بھی
عجیب شخص ہے
اپنا بھی ہے اور پرایا بھی
یہ انتظار سحر
کا تھا یا تمہارا تھا
دیا جلایا بھی
میں نے اور بجھایا بھی
میں چاہتا ہوں
ٹھہر جائے چشم دریا میں
لرزتا عکس
تمہارا بھی میرا سایا بھی
بہت مہین تھا
پردہ لرزتی آنکھوں کا
مجھے دکھایا بھی
تونے مجھے چُھپایا بھی
بیاض بھر بھی
گئی اور پھر بھی سادہ ہے
تمہارے نام کو
لکھا بھی اور مٹایا بھی
No comments:
Post a Comment