غزل
یہ جو دیوانے سے
دو چار نظر آتے ہیں
اِن میں کچھ
صاحبِ اِسرار نظر آتے ہیں
تیری محفل کا
بھرم رکھتے ہیں سو جاتے ہیں
ورنہ یہ لوگ تو بیدار نظر آتے ہیں
دُور تک کوئی
سِتارہ ہے نہ کوئی جگنو
مرگِ اُمید کت
آثار نظر آتے ہیں
میرے دامن میں
شراروں کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ پُھولوں کے خریدار نظر آتے ہیں
کل جنہیں چُھو
نہیں سکتی تھی فرشتوں کی نظر
آج وہ رونقِ
بازار نظر آتے ہیں
حشر میں کون
گواہی میری دے گا ساغرؔ
سب ہی تمہارے
طرفدار نظر آتے ہیں
ساغرؔ صدیقی
No comments:
Post a Comment