غزل
دل میں اک لہر
سی اُٹھی ہے ابھی
کو ئی تازہ ہوا
چلی ہے ابھی
شور برپا ہے
خانہءِ دل میں
کوئی دیوار سی
گری ہے ابھی
بھری دُنیا میں
جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی
کمی ہے ابھی
یاد کے بے نشاں
جزیروں پر
تیری آواز آرہی
ہے ابھی
شہر کی بے چراغ
گلیوں میں
زندگی تجھ کو
ڈھونڈتی ہے ابھی
سو گئے لوگ اِس
حویلی کے
ایک کھڑکی مگر
کھلی ہے ابھی
وقت اچھا بھی
آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی
پڑی ہے ابھی
ناصرؔ کاظمی
No comments:
Post a Comment