غزل
اِس سے پہلے کہ بےوفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جُدا ہو جائیں
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں
تو کہ یکتا تھا بےشمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں
ہم اگر منزلیں نہ بن پائیں
منزلوں تک کا راستہ ہو جائیں
دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں
عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں ،کیمیا ہو جائیں
اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تیری قبا ہو جائیں
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فرازؔ
کیا کریں لوگ جب خُدا ہو جائیں
No comments:
Post a Comment