غزل
چاہو تو میرا دُکھ ،میرا
آذار نہ سمجھو
لیکن میرے خوابوں کو
گناہگار نہ سمجھو
آساں نہیں انصاف کی زنجیر
ہلانا
دُنیا کو جہانگیر کادربار
نہ سمجھو
آنگن کے سکوں کی کوئی قیمت
نہیں ہوتی
کہتے ہیں جسے گھر اُسے
بازار نہ سمجھو
اُجڑے ہوئےطاقوں پہ جمی گرد
کی تہ میں
رُوپوش ہیں کس قسم کےاسرار
نہ سمجھو
احساس کے سو زخم بچا سکتے
ہو اَخترؔ
اظہارِ مُرّوت کو اگر پیار
نہ سمجھو
No comments:
Post a Comment