غزل
جاگا
ہوا سا تھا ، نہ وہ سویا ہوا سا تھا
برسوں
تیری یاد میں کھویا ہوا سا تھا
غیروں
کے ستم تھےیا اپنوں کی نوازشیں
لہروں
میں وقت کی وہ اُلجھا ہوا سا تھا
سُنا
ہےا ُُُس کو بھی عشق کا روگ لگ گیا
اک
شخص جو بڑا سُلجھا ہوا سا تھا
آتی
نہیں کام کوئی اب دَوا اور دُعا
رَگ رَگ میں عشق جن کے اُترا ہوا سا تھا
مرنے
کے بعد جینے کا ہُنر جانتے ہیں وہ
محبوب
کی محبت میں جو ڈوبا ہوا سا تھا
زمانے
میں وہی لوگ سَر بُلند ہوئے عادلؔ
اک
بار درِ جاناں پہ جو سَر جُھکا ہو سا تھا
No comments:
Post a Comment