غزل
گلشن دیکھائی دے ،نہ صحرا
دیکھائی دے
تم ہی نظر نہ آؤ تو پھرہمیں کیا
دیکھائی دے
وہ آشنائے راز ہے خود بین نہیں جسے
ہر آئینے میں اپنا ہی جلوہ دیکھائی
دے
یادوں کے دیپ جلنے لگے دل
کے آس پاس
اب وقت ہے کہ آپ کا جلوہ دیکھائی
دے
اس آرزو میں پلٹے ورق ہر
کتاب کے
الفاظ میں ہی اُن کا سراپا دیکھائی
دے
اہلِ خلوص دیں گےکئی مشورے
مگر
کیجیئے وہی جو آپ کو اچھا دیکھائی
دے
دیکھوں جو اک افسُردہ و بے
رنگ بو گلاب
بلکل میرے سماج کا چہرا دیکھائی
دے
کہدوں اگر میں آپ سے احوال
واقعی
ہاتھوں میں میرے زہر کا
پیالا دیکھائی دے
اٹھتی ہے اُن کی سمت نظر یوں
میری رشیدؔ
پیاسے کو جیسے دُور سے دریا
دیکھائی دے
No comments:
Post a Comment