غزل
ازل اَبد تک کی ہے
یہ کہانی
ہوئی عشق
میں یہ دُنیا دیوانی
محبت میں جینا ہےیا اور مرنا
ہے اِس کے سوا نہ کوئی کہانی
تم آ کرمیری اب مانگ بھر دو
سنبھالی ناجائے یہ الھڑ جوانی
عمر بھر کا یہ روگ بن گئی ہے
جوانی میں کی تھی جو اک نادانی
نہیں بھولتےوہ بچپن کے قصّے
وہ کاغذ کی کشتی،وہ بارش کا پانی
کسی کے لیےاِس دِل کا تڑپنا
محبت کی ہے یہ پُرانی نشانی
ملے ہیں جو زخم ہم کو عادلؔ
اپنوں کی ہے یہ سب مہر بانی
No comments:
Post a Comment