غزل
شمع ِعشق کے سب لوگ دیوانے نکلے
جان ہاتھوں میں
لیئے سب پروانے نکلے
اُن کی آنکھیں
ہیں یا کوئی مہ خانہ عادلؔ
جام پینے کے لئے
سارے مستانے نکلے
تیرے ہونٹوں پہ
رہے سداخوشی کا جام
اپنے حصّے میں
تیرےغم کے پیمانے نکلے
عشق کی بات ہوئی جب
بھی زمانے میں
جاں کا نذرانہ
لئیے سرِدار دیوانے نکلے
مان لیا جب اُن
کواپنا پیر و مُرشد ہم نے
جان و دل سب عقیدت کے نذرانے نکلے
تیرے درشن کی
لگن لیئے دل میں عادؔل
ازل سےلے کے ابد
تک سب زمانے نکلے
عادؔل
No comments:
Post a Comment