غزل
حدودِ جاں سے گزر ہوا تو
محبتوں کا پتہ چلے گا
محبتوں کی نذر ہوا تو
محبتوں کا پتہ چلے گا
ابھی تو پھرتے ہو دوستوں
میں،عزیز کوئی جُدا نہیں ہے
کوئی اِدھر سے اُدھر ہوا تو
محبتوں کا پتہ چلے گا
یہ خوش نصیبی ہے شہر بھر
میں،نہیں ہے کوئی تمہارا دُشمن
کبھی کسی کا ڈر ہوا تو
محبتوں کا پتہ چلے گا
وہ جس کی خاطر بنا رہے ہو،
زمانے بھر کو اپنا دُشمن
وہی نہ اپنااگر
ہوا تو محبتوں کا پتہ چلے گا
بدل بدل کر ابھی تو چہرے
،بنا رہے ہو معیار اپنا
کوئی نہ حدِ نظر ہوا تو
محبتوں کا پتہ چلے گا
یہ کیا بچھڑنا کہ شام ہوتے
ہی اپنے پیاروں میں لوٹ آنا
کبھی جو لمبا سفر ہوا تو
محبتوں کا پتہ چلے گا
No comments:
Post a Comment