Thursday, 30 April 2020

Ankhain ( Eyes for Love )

 آنکھیں

دراز پلکیں، وصال آنکھیں
مصوّ ری کا کمال آنکھیں

شراب رب نے حرام کردی
پھر کیوں رکھی حلال آنکھیں

ہزاروں اِن سے قتل ہوئے ہیں
خُدا کے بندے سنبھال آنکھیں



Tuesday, 28 April 2020

Meri kahani likhna ( Write my story )

غزل

میرے مرنے کے بعد میری کہانی لکھنا
کیسے برباد ہوئی میری جوانی لکھنا

اور لکھنا میرے ہونٹ خوشی کو ترسے
کیسے برسا میری آ نکھوں سے پانی لکھنا

اور لکھنا کہ اُسے انتظار تو بہت تھا تیرا
آخری سانسوں میں ہچکیوں کی روانی لکھنا

لکھنا کہ مرتے وقت بھی دیتا تھا دُعا تجھ کو
ہاتھ باہر تھے کفن سے یہ نشانی لکھنا




Monday, 27 April 2020

Jurm hai kia muhabbat karna ( Love is a crime )

غزل

یاد آوں تو بس  اتنی سی عنایت کرنا
اپنے بدلے ہوئےلہجے کی وضاحت کرنا

تم تو چاہت کو شاہکار ہوا کرتے تھے
کس سے سیکھا ہے اُلفت میں ملاوٹ کرنا

ہم سزاوں کے حقدار بنے ہیں کب سے
تم ہی کہہ دو کہ جُرم ہے کیا محبت کرنا؟

تیری فرقت میں یہ آنکھیں ابھی تک نم ہیں
کبھی آنا میری آنکھوں کی زیارت کرنا


Sunday, 26 April 2020

Milla kay ankh na mehroom ( Eyes be deprived of pride )

غزل

ملا کے آنکھ نہ محرومِ ناز رہنے دے
تجھے قسم جو مجھے پاک باز رہنے دے

میں اپنی جان تو قربان کر چکوں تجھ پر
یہ چشمِ مست ابھی نیم باز رہنے دے

گلے سے تیغ ادا کو جدا نہ کر قاتل
ابھی یہ منظر راز و نیاز رہنے دے

یہ تیرِ ناز ہیں تو شوق سے چلا ئےجا
خیالِ خاطر اہلِ  نیاز رہنے دے

ازل سے حسن تو عاشق نواز ہے لیکن
جو عشق ہے اُسے عاشق نواز  رہنے دے

بجھا نہ آتشِ فرقت کرم کے چھینٹوں سے
دِل جگر کو مجسم گداز رہنے دے

جگر مراد آبادی 


Jaan janay ka ghum ( Grief of death )


جان لیتا گر  تو جان جا نے  کا غم
تو بچھڑنے کی بات مت کرتا

سی لیتا اپنے ہونٹوں کو عاؔدل
زخم دینے کی بات مت کرتا






Thursday, 23 April 2020

Sub Gham tumharay ( All grief is yours )

غزل

مجھے خبر نہیں کتنے خسارے رکھے گئے
مرے نصیب میں سب غم تمھارے رکھے گئے

ہمارے ساتھ محبت میں اتنا ظلم ہوا
ہماری آنکھ میں جلتے انگارے رکھے گئے

میں کہہ چُکا تھا مجھے تیرنا نہیں آتا
بہت ہی دور تبھی کنارے رکھے گئے

کسی سے خاص تعلق تو پھر بنا ہی نہیں
تمہارے بعد تو وقتی  گذارے  رکھے گئے

ہما رے گھر  کے چراغوں سے روشنی لے کر
کسی کی مانگ   میں اُجلے ستارے رکھے گئے

کسی کی آنکھ ترستی رہی  اُجالوں کو
کسی کی آنکھ میں سارے نظارے رکھے گئے

ہم  جیسے لوگ محبت کا آسرا تھے مگر
ہمارے واسطے  جُھوٹے، سہارے رکھے گئے

اقراء عافیہ



Monday, 20 April 2020

Teri chaton main guzar gai ( Passed on your wishes )

غزل

کبھی مشکلوں کا تھا سامنا، کبھی راحتوں میں گزر گئے
وہ جو دن تھے میرے شباب کے، تیری چاہتوں میں گزر گئے

تیری جستجو میں رواں دواں، کبھی سنگ تھے کبھی کہکشاں
وہ دن بھی کتنے حسین تھے، جو مسافتوں میں گزر گئے

میرے  ہمدم کی نوازشیں ، یہ نوازشیں تھیں کہ سازشیں
وہ جو روز و شب تھے وصال کی، وہ شکا یتوں میں گزر گئے

کبھی راز داں نے ستم کیا،کبھی میں رقیب سے مل گیا
وہ جو لمحے تھے میرے پیار کے، وہ رقا بتوں  میں گزر گئے

کبھی دِل گیا کبھی جاں گئی، کبھی روح بدن سے نکل گئی
وہ جو لمحے تھے اظہار کے، وہ شکا یتوں میں گزر گئے

  وزیر گو ہایوی


Saturday, 18 April 2020

Dukh judai kay ( Grief of separation )

 غزل

دُکھ جدائی کے خواب ہو  جائیں
درد سارے گلاب ہو جائیں

آپ بیٹھیں جو میرےپہلو میں
لوگ جل کر کباب ہو جائیں

ایک پل کو جو دور تم جاوُ
اشک  میرےکتاب ہو جائیں

میرے لب پر سوال آیا ہے
تیری آنکھیں جواب ہو جائیں

رابطے میں رہا کرو تم بھی
نہ کہیں دِل خراب ہو جائیں

جن پرندوں کو اُڑنا آتا  ہو
اُن پہ پنجرے عذاب ہو جائیں

اُس کے  ہاتھوں کے لمس سے اقراء
خاک ریزے گلاب ہو جائیں

اقراء عالیہ



Wednesday, 15 April 2020

Chahton ka sisilla ( Love Relation series )


غزل

ختم اپنی چاہتوں کا سلسلہ کیسے ہوا
تُو تو مجھ میں جذب تھا  مجھ سے جُدا کیسے ہوا

وہ تیرے اور میرے درمیاں اِک بات تھی
آؤ سوچیں ذرا شہر اِس سے آشنا کیسے ہوا

چُبھ گئیں سینے میں ٹوٹی خواہشوں کی کرچیاں
کیا لکھوں دِل ٹوٹنے کا حادثہ  کیسے ہوا

جو رگِ جاں تھا کبھی ملتا ہے اب رُخ پھیر کر
سوچتا ہوں اِس قدر وہ بے وفا کیسے ہوا 



Tuesday, 14 April 2020

Jalnay lagi lahoo main judaee ( The burning of broken heart )

غزل

جلنے لگی لہو میں جُدائی تو  رُو د ئیے
تنہا ئیوں نے خاک اُڑائی تو  رُو د ئیے

چہرے نے تیرا روگ چھپایا تو ہنس دئیے
آنکھوں نے تیری یاد منائی تو  رُو د ئیے

خوشیوں نے کوئی یاد دلا یا تو تڑپ اُٹھے
پھولوں نے داستان سنائی تو  رُو د ئیے

گزرا ہے ہم پہ خود یہی عالم اِسی لئے
ہنسنے لگی کسی پہ خدائی   تو  رُو د ئیے

راس آ چکی تھی  تیرگئی شب کچھ اِس قدر
گر شمع بھی کسی نے جلائی تو  رُو د ئیے



Friday, 10 April 2020

Suna hai log use aankh bhar ( See with their heart eyes )

غزل

سنا ہے لوگ اُسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
تو اُس کے شہر میں کچھ دِن ٹھہر  کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے ربط ہے اُس کو خراب حالوں سے
سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے اُس کو بھی ہے شعر وشاعری سے شغف
تو ہم بھی معجزے اپنے ہنر   کے دیکھتے ہیں

سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑ تے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اُس کی
سو ہم بھی اُس کی گلی سے گزر  کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے رات اُسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بام ِ فلک سےاُتر کے دیکھتے ہیں

سُنا ہے دِن کو اُسے تتلیاں ستاتی ہیں
سُنا ہے رات کو جگنو  ٹھہر کے دیکھتے ہیں

اب اُس کے شہر  میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
فرؔاز آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں 



Monday, 6 April 2020

Mujh se milte hain ( When he meet me )


غزل

مجھ سے ملتے ہیں تو ملتے ہیں چُرا کر آنکھیں
پھر وہ کس کے لئے رکھتے ہیں سجا کر آنکھیں

میں انہیں دیکھتا رہتا ہوں جہاں تک دیکھوں
ایک وہ ہیں جو دیکھیں نا کبھی اُٹھا کر آنکھیں

اِس جگہ آج   بھی بیٹھا ہوں  اکیلا یارو!
جس جگہ چھوڑ گئے تھے وہ ملا کر آنکھیں

مجھ سے نظریں وہ اکثر  چُرا  لیتے ہیں فرازؔ
میں نے کاغذ پہ بھی دیکھی ہیں بنا کر آنکھیں



Dukh day kar sawal kartay ho ( You ask with sorrow )


غزل

دُکھ دے کر سوال کرتے ہو۔۔
تم بھی غالب کمال کرتے ہو۔۔

دیکھ کر پوچھ لیا حال میرا،
چلو کچھ تو خیال کرتے ہو

شہرِ دل میں یہ اُداسیاں کیسی
یہ بھی مجھ سے سوال کرتے ہو

مرنا چاہیں تو مرنہیں سکتے
تم بھی جینا محال کرتے ہو

کس کس کی مثال دوں تم کو
ہر ستم بےمثال کرتےہو 



Friday, 3 April 2020

Khud ko hi apni zaat ( I'm finding itself )

غزل

خُود کو ہی اپنی ذات میں ڈھونڈنے لگا ہوں میں
میں کون ہوں خُود سے ہی پوچھنے لگا ہوں میں

یوں ہی نہیں ہوتی ۔۔برباد زندگی
پا کر کسی کے پیار کو اب کھونے لگا ہوں میں

ہونے کو تو ہو جاتے ہیں ہر بار ہمارے
اب خود کو ہار کر اُس کا ہونے  لگا ہوں میں

ہنس ہنس کے گزاری تھی میری زندگی حسین تھی
ہنس ہنس کے ہزار بار اب رونے لگا ہوں میں

اب جا چکے ہیں منوّر اپنے دن بہار کے
خزاں کے خوف سے اب ٹوٹنے لگا ہوں میں

منوّر ظریف



Thursday, 2 April 2020

Lazim nahi Us ko mera kheyal ho ( It must not be thought )

غزل

لازم نہیں کہ اُس کو بھی میرا خیال ہو
جو میرا حال ہے، وہی اُس کا بھی حال ہو

کچھ اور دِل گذاد ہوں اِس شہرِ سنگ میں
کچھ اور پُر ملال، ہوائے ملال ہو

باتیں تو ہوں کچھ تو دلوں کی خبر ملے
آپس میں اپنے کچھ تو جواب و سوال ہو

رہتے ہیں آج جس میں، جسے دیکھتے ہیں ہم
ممکن ہے یہ گذشتہ کا خواب وخیال ہو

سب شور شہر خاک کا ہے قرب آب سے
پانی نہ ہو تو شہر کا جینا مُحال ہو

معدوم ہوتی جاتی  ہوئی شے ہے یہ جہاں
ہر چیز اِس کی جیسے فنا کی مثال ہو

کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیرؔ
اِن روزوشب میں ایسا بھی اک دِن کمال ہو

منیرؔ نیازی


Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے