Tuesday, 29 September 2020

Muhabat main musafat ( Distance in love )


غزل

محبت میں مُسافت کی نزاکت مار دیتی ہے

یہاں پر اِک ساعت کی حماقت مار دیتی ہے


غلط ہے یہ گماں تیرا کوئی تجھ پہ فدا ہو گا

کسی پہ کون مرتا ہے، ضرورت مار دیتی ہے


میں حق پر ہوںمگر میری گواہی کون دے گا

کہ دُ نیا کی عدالت میں صداقت مار دیتی ہے


سرِ محفل جو بولوں تو دنیا کو کھٹکتا ہوں

رہوں میں چُپ تو اندر کی بغاوت مار دیتی ہے


کسی کی بے نیازی پہ زمانہ جان دیتا ہے

کسی کو چاہے جانے کی یہ حسرت مار دیتی ہے


زمانے سے اُلجھنا بھی   نہیں اچھا مگر دیکھو

یہاں حد سے زیادہ بھی شرافت مار دیتی ہے



 

Saturday, 26 September 2020

Roz o shab ( day and night )

غزل

روزو شب یوں نہ اذیت میں گزارے ہوتے

چین آجاتا ، اگر کھیل کے ہارے ہوتے


خود سے فُرصت ہی میسر نہیں آتی ورنہ

ہم کسی اور کے ہوتے ، تو تمہارے ہوتے


تجھ کو بھی غم نے اگر تھیک سے برتا ہوتا

تیرے چہرے پہ خدو خال ہمارے ہوتے


کھل گئی ہم پہ محبت کی حقیقت، ورنہ

یہ جواَب فائدے لگتے ہیں، خسارے ہوتے


ایک بھی موج اگر میری حمایت کرتی!

میں نے اُس پار کئی لوگ اُتارے ہوتے


لگ گئی اور کہیں عمر کی پونچی ورنہ

زندگی ہم تیری دہلیز پہ ہارے ہوتے


خرچ ہو جاتے اِسی ایک محبت میں

دِل اگر اور بھی سینے میں ہمارے ہوتے


محسن نقوی


 

Friday, 25 September 2020

Akaylay chore jatay ho ( left me alone )


غزل

اکیلے چھوڑ جاتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے

ہمارا دِل جلاتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے


کہا بھی تھی یاری ہے یاری ہی رکھو اِس کو

تماشہ جو بناتے ہو  یہ تم اچھا نہیں کرتے


اُٹھاتے ہو سرِ محفل فلک تک تم ہمیں لیکن

اُٹھا کر جو گراتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے


کوئی جو پوچھ لے تم سے، رشتہ کیا ہے اب ہم سے

تو نظروں کو جھکاتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے


بکھر جائیں اندھیروں میں، سہارا تم ہی دیتے ہو

مگر پھر چھوڑ جاتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے





 

Thursday, 24 September 2020

Lafzoon ki trah ( To meet like Words )

غزل

لفظوں کی طرح مجھ سے ، کتابوں میں ملا کر

دُنیا کا تجھے ڈر ہے، تو خوابوں میں ملا کر


پھولوں  سے  تو خوشبو کا، تعلق ہے ضروری

تو مجھ سے مہک بن کے، گلابوں میں ملا کر


ساغر کو میں چھو کر، تجھے محسوس کرونگا

مستی کی طرح مجھ سے شرابوں میں ملا کر


میں بھی ہوں بشرمجھ کو بہکنے کا  بھی ڈر ہے

اِس واسطے تو مجھ سے حجابوں میں ملا کر


 

Saturday, 19 September 2020

Zindgi Bhar nahi ( Whole Life not )

غزل

زندگی بھر نہیں  دیکھا  وہ  دوبارہ میں نے

اِک زمانہ جو تیرے ساتھ گذارا میں نے


ڈوبتے وقت مجھے دیکھ کے دریا   رُویا

پر نہ چاہا کسی تنکے کا سہارا میں نے


یہ تیرا حُسن جو لگتا ہے ستارا سب کو

اِس ستارے کو بلندی سے اُتارا میں نے


آج کمرے  میں پڑی میز کی مٹی پہ حمیدؔ

نام لکھ لکھ کے مٹایا ہے تمہارا میں نے


حمید تسلیم


 

Thursday, 17 September 2020

Adakari nahi karta ( Does not acting)


غزل

معزز بن کے محفل میں اداکاری نہیں کرتا

میں چہرے پہ کبھی جُھوٹی انا طاری نہیں کرتا


میرا دُشمن میرے دَستور سےواقف نہیں شاید

جسے میں دوست کہہ دوں اُس سے غداری نہیں کرتا


یہاں بہتر ہے اپنی ذات کا ہمدرد ہو جانا

زمانہ غم تو دے سکتا ہے مگر غمخواری نہیں کرتا


مجھے موقع شناسی کا ہنر آیا نہیں اب تک

جہاں مطلب نکلتا ہو سمجھداری    نہیں کرتا  




 

Saturday, 12 September 2020

Insaaf zalmoo ki ( Justice of the oppressors )

غزل

انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا

یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا


دستار نوچ نوچ کر احباب لے اُڑے

سر بچ گیا ہے یہ بھی شرافت میں جائے گا


دوزخ کے انتظام میں اُلجھا ہے رات دِن

دعوٰی یہ کر رہا ہے کہ جنّت میں جائے گا


خوش فہمیوں کی بھیڑ میں تو بھول کیوں گیا

پہلے مرے گا بعد میں جنّت میں جائے گا


واقف ہے خوب جھوٹ  کے فن سے  یہ آدمی

یہ آدمی ضرور سیا ست میں جائے گا


راحت ؔ اندوری 



 

Tuesday, 8 September 2020

Mian Bhool jaoun ( I forget you )

غزل


میں بھول جاؤں تجھے ایسا کبھی ہوا ہی نہیں

تیرے سوا میرے دِل میں کوئی بسا ہی نہیں


ملے تھے راہ میں یوں تو ہزار ہا چہرے !

میری نگاہ میں لیکن کوئی جچا ہی نہیں


جو تم نے توڑ دیاتو کروں کیا اِس کا گلہ

سکون دِل کا میرے تو کبھی ملا ہی نہیں


تمام عمر کٹی انتظار میں اُس کے

وہ جس نے پیار کبھی مجھ سے کیا ہی نہیں


یہی تھا اپنا اِرادہ ، اور تیرا تقاضا بھی

بچھڑ کے تجھ سے کوئی سانس بھی جیا ہی نہیں 




 

Saturday, 5 September 2020

Ye Ishq aik jowa ( Love is a gamble )


یہ عشق ایک جُوا ہے ، بتاؤ کھیلو گے

سمجھ لُو دَاؤ پہ سب کچھ  لگانا پڑتا ہے


ہر آدمی سے طبعیت تو مل نہیں سکتی

مگر یہ ہاتھ تو پھر بھی ملانا پڑتا ہے



 

Kia Ishq tha ( Was My Love )

غزل

کیا عشق تھا جو باعثِ رُسوائی بن گیا

یارو تمام شہر تما شائی بن گیا


بِن مانگے مل گئے مری آنکھوں کو رَت جگے

میں جب سے چاند کا شیدائی بن گیا


برہم ہوا تھا میری کسی بات پر کوئی

وہ حادثہ ہی وجہ شنا سائی بن گیا


پایا نہ جب کسی میں بھی آوارگی کا شوق

صحرا سمٹ کے گوشۂِ تنہائی بن گیا


تھا بے قرار وہ مرے آنے سے پیشتر

دیکھا مجھے تو پیکرِ دانائی بن گیا


کرتا رہا جو روزمجھے اُس سے بد گماں

وہ شخص بھی اب اُس کا تمنائی بن گیا


وہ تیری بھی تو پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ

پھر کیا ہوا اگر کوئی ہر جائی بن گیا





 

Tuesday, 1 September 2020

Toot jai na bharam (Illusion is not broken )

غزل

ٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے

حال جیسا بھی ہے لوگوں کو سناؤں کیسے


خشک آنکھوں سے بھی اشکوں کی مہک آتی ہے

میں تیرے غم کو دُنیا سے چھپا ؤں کیسے


تیری صورت ہی میری آنکھ کا سرمایہ ہے

تیرےچہرے سے نگاہوں  کو ہٹاؤں کیسے


تو ہی بتلا میری یادوں کو بُھلانے والے

میں تیری یاد کواِس  دل سے بُھلاؤں کیسے


پھول ہوتا تو تیرے در پہ سجا بھی  رہتا

زخم لے کر تیری دہلیز پہ آؤں کیسے


وہ  رُلاتا ہے رُلائے مجھے جی بھر کے عدیمؔ

میری آنکھیں ہے وہ میں اُس کو رُلاؤں کیسے



 

Waqt kay sitam ( The tyranny of time)

غزل وقت نے جو کیٔے ستِم ٹوٹا ہے دل آنکھ ہے نَم بہار بھی خزاں لگے جب سے ہوے جدا صنم کس کو دِکھاؤں داغِ دل کوئی نہیں  میرا ہمدم ...