غزل
کیا عشق تھا جو
باعثِ رُسوائی بن گیا
یارو تمام شہر
تما شائی بن گیا
بِن مانگے مل
گئے مری آنکھوں کو رَت جگے
میں جب سے چاند
کا شیدائی بن گیا
برہم ہوا تھا
میری کسی بات پر کوئی
وہ حادثہ ہی وجہ
شنا سائی بن گیا
پایا نہ جب کسی
میں بھی آوارگی کا شوق
صحرا سمٹ کے
گوشۂِ تنہائی بن گیا
تھا بے قرار وہ
مرے آنے سے پیشتر
دیکھا مجھے تو
پیکرِ دانائی بن گیا
کرتا رہا جو
روزمجھے اُس سے بد گماں
وہ شخص بھی اب
اُس کا تمنائی بن گیا
وہ تیری بھی تو
پہلی محبت نہ تھی قتیلؔ
پھر کیا ہوا اگر
کوئی ہر جائی بن گیا
No comments:
Post a Comment