Tuesday, 1 September 2020

Toot jai na bharam (Illusion is not broken )

غزل

ٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے

حال جیسا بھی ہے لوگوں کو سناؤں کیسے


خشک آنکھوں سے بھی اشکوں کی مہک آتی ہے

میں تیرے غم کو دُنیا سے چھپا ؤں کیسے


تیری صورت ہی میری آنکھ کا سرمایہ ہے

تیرےچہرے سے نگاہوں  کو ہٹاؤں کیسے


تو ہی بتلا میری یادوں کو بُھلانے والے

میں تیری یاد کواِس  دل سے بُھلاؤں کیسے


پھول ہوتا تو تیرے در پہ سجا بھی  رہتا

زخم لے کر تیری دہلیز پہ آؤں کیسے


وہ  رُلاتا ہے رُلائے مجھے جی بھر کے عدیمؔ

میری آنکھیں ہے وہ میں اُس کو رُلاؤں کیسے



 

No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے