غزل
ٹوٹ جائے نہ
بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے
حال جیسا بھی ہے
لوگوں کو سناؤں کیسے
خشک آنکھوں سے
بھی اشکوں کی مہک آتی ہے
میں تیرے غم کو
دُنیا سے چھپا ؤں کیسے
تیری صورت ہی
میری آنکھ کا سرمایہ ہے
تیرےچہرے سے
نگاہوں کو ہٹاؤں کیسے
تو ہی بتلا میری
یادوں کو بُھلانے والے
میں تیری یاد
کواِس دل سے بُھلاؤں کیسے
پھول ہوتا تو
تیرے در پہ سجا بھی رہتا
زخم لے کر تیری
دہلیز پہ آؤں کیسے
وہ رُلاتا ہے رُلائے مجھے جی بھر کے عدیمؔ
میری آنکھیں ہے
وہ میں اُس کو رُلاؤں کیسے
No comments:
Post a Comment