غزل
اکیلے چھوڑ جاتے
ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے
ہمارا دِل جلاتے
ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے
کہا بھی تھی
یاری ہے یاری ہی رکھو اِس کو
تماشہ جو بناتے
ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے
اُٹھاتے ہو سرِ
محفل فلک تک تم ہمیں لیکن
اُٹھا کر جو
گراتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے
کوئی جو پوچھ لے
تم سے، رشتہ کیا ہے اب ہم سے
تو نظروں کو
جھکاتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے
بکھر جائیں
اندھیروں میں، سہارا تم ہی دیتے ہو
مگر پھر چھوڑ
جاتے ہو یہ تم اچھا نہیں کرتے
No comments:
Post a Comment