غزل
میں بھول جاؤں
تجھے ایسا کبھی ہوا ہی نہیں
تیرے سوا میرے
دِل میں کوئی بسا ہی نہیں
ملے تھے راہ میں
یوں تو ہزار ہا چہرے !
میری نگاہ میں
لیکن کوئی جچا ہی نہیں
جو تم نے توڑ
دیاتو کروں کیا اِس کا گلہ
سکون دِل کا
میرے تو کبھی ملا ہی نہیں
تمام عمر کٹی
انتظار میں اُس کے
وہ جس نے پیار
کبھی مجھ سے کیا ہی نہیں
یہی تھا اپنا
اِرادہ ، اور تیرا تقاضا بھی
بچھڑ کے تجھ سے
کوئی سانس بھی جیا ہی نہیں
No comments:
Post a Comment