غزل
آنکھوں کا رنگ،
بات کا لہجہ بدل گیا
وہ شخص ایک شام
میں کتنا بدل گیا
کچھ دِن تو میرا
عکس رہا آئینے پہ نقش
پِھر یوں ہُوا
کہ خُود میرا چہرہ بدل گیا
قدموں تلے جو
ریت تھی وہ چل پڑی
اُس نے چُھڑایا
ہاتھ تو صحرا بدل گیا
کوئی بھی چیز
اپنی جگہ پر نہیں رہی
جاتے ہی ایک شخص
کے کیا کیا بدل گیا
امجد اِسلام امجد