Monday, 30 November 2020

Ankhoon ka rang ( Eyes Color )


غزل

آنکھوں کا رنگ، بات کا لہجہ بدل گیا

وہ شخص ایک شام میں کتنا بدل گیا


کچھ دِن تو میرا عکس رہا آئینے پہ نقش

پِھر یوں ہُوا کہ خُود میرا چہرہ بدل گیا


قدموں تلے جو ریت  تھی وہ چل پڑی

اُس نے چُھڑایا ہاتھ تو صحرا بدل گیا


کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر نہیں رہی

جاتے ہی ایک شخص کے کیا کیا بدل گیا


امجد اِسلام امجد



 

Saturday, 28 November 2020

Need Ankhoon main ( Sleep in the eyes )


غزل


نیند آنکھوں میں مسلسل نہیں ہونے دیتا

وہ میرا خواب مکمل نہیں ہونے دیتا


آنکھ کے شیش محل سے وہ کسی بھی لمحے

اپنی تصویر کو اوجھل نہیں ہونے دیتا


رابطہ بھی نہیں رکھتا ہے سروصل کوئی

اور تعلق بھی مُعطل نہیں ہونے دیتا


وہ جو اک شہر ہے پانی کے کنارے آباد

اپنے اطراف میں دلدل نہیں ہونے دیتا


جب کے تقدیر اٹل ہے تو دعا کیا معنیٰ

ذہن اِس فلسفے کو حل نہیں ہونے دیتا


دل تو کہتا ہے اُسے لوٹ کے آنا ہے یہیں

یہ دلاسا مجھے پاگل  نہیں ہونے دیتا


قریٔہ جاں پہ کبھی ٹوٹ کے برسیں روحیؔ

ظرف آنکھوں کو وہ بادل نہیں ہونے دیتا 





 

Thursday, 26 November 2020

Her hall mian jeena ( Live in every situation )


غزل

یہاں پل پل جلنا پڑتا ہے

ہر رنگ میں ڈھلنا پڑتا ہے


ہر موڑ پہ ٹھوکر لگتی ہے

ہر حال میں چلنا پڑتا ہے


ہر دل کو سمجھنے کی خاطر

بس خود سے لڑنا پڑتا ہے


کبھی خود کو کھونا پڑتا ہے

کبھی چُھپ کے رونا پڑتا ہے


کبھی نیند نہ آۓ پھولوں پہ

کانٹوں پہ سونا پڑتا ہے


کبھی مر کے جینا  پڑتا ہے

کبھی جی کے مرنا پڑتا ہے


کبھی تو خوشیاں آئیں گی

اِس آس پہ جینا  پڑتا ہے


ہر پل میں زہر پی کے بھی  

ہر حال میں جینا پڑتا ہے



 

Wednesday, 25 November 2020

Mujhat tum say Muhabbat hai ( I love you now )

نظم

مجھے تب بھی محبت تھی

مجھے اب بھی محبت ہے

 

تیرے قدموں کی آہٹ سے

تیری ہر مسکراہٹ سے

تیری باتوں کی خوشبو سے

تیری آنکھوں کے جادو سے

تیری دلکش اَدؤں سے

تیری قاتل جفاؤں سے

 

مجھے تب بھی محبت تھی

مجھے اب بھی محبت ہے

 

تیری راہوں میں رُکنے سے

تیری پلکوں کے جھکنے سے

تیری بے جا شکایت سے

تیری ہر ایک عادت سے

 

مجھے تب بھی محبت تھی

مجھے اب بھی محبت ہے



 

Saturday, 21 November 2020

Kabhi yaad aaiy ( If You Remember )


نظم

 کبھی یاد آۓ تو پوچھنا

ذرا اپنی خلوتِ شام سے

کسے عشق تھا تیری ذات سے؟

کسے پیار تھا تیرے نام سے

ذرا یاد کر وہ کون تھا۔۔

جو کبھی تجھے بھی عزیز تھا

وہ جو مر مٹا تیرے نام پر۔۔

وہ جی اُٹھا تیرے نام سے

ہمیں بے رُخی کا  نہیں گلہ ۔

کہ یہی ہے وفاؤں کا صلہ۔

مگر ایسا جُرم تھا کون سا؟

گیٔے ہم دُعا و سلام سے

 کبھی یاد آۓ تو پوچھنا

ذرا اپنی خلوتِ شام سے



 

Monday, 16 November 2020

Bahut hi maan hai Tum per ( I am proud of you )


نظم

بہت ہی مان ہے تم پر

سنو پاسِ وفا رکھنا

سبھی سے تم ملو لیکن

ذرا سا فاصلہ رکھنا

بچھڑ جانا بھی پڑتا ہے

ذرا سا حوصلہ رکھنا

وہ سارے وصل کے لمحے

تم آنکھوں میں سجا رکھنا

ابھی امکان باقی ہے

ابھی لب پر دُعا رکھنا

بہت نایاب ہیں دیکھو

ہمیں سب سے جُدا رکھنا



 

Wednesday, 11 November 2020

Kabhi jo hum nahi ( We will never with you )


نظم

کبھی جو ہم نہیں ہوں گے

کہو کس کو ستاؤ گے؟

وہ اپنی اُلجھنیں ساری

وہ آنکھوں میں چھپے آنسو

کِسے پھر تم دِکھاؤ گے؟

کبھی جو ہم نہیں ہوں گے

بہت بے چین ہوگے تم

بہت تنہا رہو گے تم

ابھی بھی تم نہیں سمجھے

ہماری ان کہی باتیں

مگر جب یاد آئیں گی

بہت تم کو ستائیں گی

بہت چاہو گے پھر بھی تم

ہمیں نہ ڈھونڈ پاؤ گے

کبھی جو ہم نہیں ہوں گے



 

Tuesday, 10 November 2020

Gulaabi hontoon pay ( Pink lips )

نظم

گلابی ہونٹوں پہ مسکراہٹ

سجا کے ملتے تو بات بنتی

وہ چاند چہرے سے کالی زُلفیں

ہٹا کے ملتے تو بات بنتی

 

مجھے بھی خود پہ غرور ہوتا

مجھے بھی حاصل سرور ہوتا

اگر وہ آنکھوں سے روز مجھ کو

پلا کے ملتے تو بات بنتی

 

دُکھوں کی تاریکیوں میں جاناں

نہ میں بھٹکتانہ وہ بھٹکتے

دیئے وفا کے دِل و نگاہ میں

جلا کے ملتے تو بات بنتی

 

بہار کی اِس سُہانی رُت میں

مجھے بھی شہزادؔ چین ملتا

اگر وہ دانتوں میں سُرخ آنچل

دبا کے ملتے تو بات بنتی




 

Friday, 6 November 2020

Dill mai jo hai ( Whatever in the heart )

غزل

دل میں جو کچھ ہے بتاؤ کیسے

تجھ کو، تجھ سے ہی چھپاؤ ں کیسے


وہ یقیں ہو کہ گماں لگتا ہے

اُس کو آنکھوں میں بساؤں کیسے


زندگی دردِ مجسم ہے مگر

جیتے جی خود کو بچاؤں کیسے


ہر قدم درد بڑھاتی جاۓ

ایسی دُنیا سے نبھاؤں کیسے


آگ لگنے سے دُھواں اُٹھتا ہے

دِل کو جلنے سے بچاؤں کیسے


راستے میں جسے کھویا تھا کبھی

اپنے گھر اُس کو ُبلاؤں کیسے


کتنی یادوں کا پری خانہ ہے

اپنے اِس گھر کو جلاؤں کیسے


راشدؔ فاضلی



 

Tuesday, 3 November 2020

Marhallay shouq kay ( Stage of interest )


غزل

مرحلے شوق کے دُشوار ہوا کرتے ہیں

ساۓ بھی راہ کے دیوار ہوا کرتے ہیں


وہ جو سچ بولتے رہنے کی قسم کھاتے ہیں

وہ عدالت میں گُنہگار ہوا کرتے ہیں


صرف ہاتھوں کو نہ دیکھو کبھی آنکھیں بھی پڑھو

کچھ سوالی بڑے خُودار ہوا   کرتے ہیں


وہ جو پتھر یونہی رستے میں پڑے رہتے ہیں

اُن کے سینے میں بھی شہکار ہوا کرتے ہیں


صبح کی پہلی کرن جن کو رُلا دیتی ہے

وہ ستاروں کے عزادار ہوا کرتے ہیں


جن کی آنکھوں میں سدا پیاس کے صحرا چمکیں

در حقیقت وہی فنکار ہوا کرتے ہیں


شرم آتی ہے کہ دُشمن کِسے سمجھیں محسنؔ

دُشمنی کے بھی تو معیار ہوا کرتے ہیں


محسؔن نقوی



 

Sunday, 1 November 2020

Rabtay bhi rakhta hoon ( Keep in Touch )


غزل

رابطے بھی رکھتا ہوں، راستے بھی رکھتا ہوں

لوگوں سے  ملتا ہوں، فاصلے بھی رکھتا ہوں


غم نہیں کرتا  اب چھوڑ جانے والوں کا

توڑ کر تعلق میں، دَر کُھلے بھی رکھتا ہوں


خود کو ہے اگر بدلا، وقت کے مطابق تو

وقت کو بدلنے کے حوصلے  بھی رکھتا ہوں


بھر کے بھول جاتے ہیں گھاؤ فکر ہے مجھ کو

زخم کچھ پُرانے سو اَن سلے بھی رکھتا ہوں


گو کسی بھی منزل کی اب طلب نہیں مجھ کو

ہر گھڑی میں پیروں میں آبلے بھی رکھتا ہوں


مانتا ہوں ابرکؔ میں بات یار لوگوں کی

سوچ کے مگر اپنے ، زاویےبھی رکھتا ہوں


اتباک ابرکؔ



 

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے