غزل
یہاں پل پل جلنا
پڑتا ہے
ہر رنگ میں
ڈھلنا پڑتا ہے
ہر موڑ پہ ٹھوکر
لگتی ہے
ہر حال میں چلنا
پڑتا ہے
ہر دل کو سمجھنے
کی خاطر
بس خود سے لڑنا
پڑتا ہے
کبھی خود کو
کھونا پڑتا ہے
کبھی چُھپ کے
رونا پڑتا ہے
کبھی نیند نہ
آۓ پھولوں پہ
کانٹوں پہ سونا پڑتا
ہے
کبھی مر کے جینا
پڑتا ہے
کبھی جی کے مرنا
پڑتا ہے
کبھی تو خوشیاں
آئیں گی
اِس آس پہ جینا پڑتا ہے
ہر پل میں زہر
پی کے بھی
ہر حال میں جینا
پڑتا ہے
No comments:
Post a Comment