Friday, 6 November 2020

Dill mai jo hai ( Whatever in the heart )

غزل

دل میں جو کچھ ہے بتاؤ کیسے

تجھ کو، تجھ سے ہی چھپاؤ ں کیسے


وہ یقیں ہو کہ گماں لگتا ہے

اُس کو آنکھوں میں بساؤں کیسے


زندگی دردِ مجسم ہے مگر

جیتے جی خود کو بچاؤں کیسے


ہر قدم درد بڑھاتی جاۓ

ایسی دُنیا سے نبھاؤں کیسے


آگ لگنے سے دُھواں اُٹھتا ہے

دِل کو جلنے سے بچاؤں کیسے


راستے میں جسے کھویا تھا کبھی

اپنے گھر اُس کو ُبلاؤں کیسے


کتنی یادوں کا پری خانہ ہے

اپنے اِس گھر کو جلاؤں کیسے


راشدؔ فاضلی



 

No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے