غزل
دل میں جو کچھ
ہے بتاؤ کیسے
تجھ کو، تجھ سے
ہی چھپاؤ ں کیسے
وہ یقیں ہو کہ
گماں لگتا ہے
اُس کو آنکھوں
میں بساؤں کیسے
زندگی دردِ مجسم
ہے مگر
جیتے جی خود کو
بچاؤں کیسے
ہر قدم درد
بڑھاتی جاۓ
ایسی دُنیا سے
نبھاؤں کیسے
آگ لگنے سے
دُھواں اُٹھتا ہے
دِل کو جلنے سے
بچاؤں کیسے
راستے میں جسے
کھویا تھا کبھی
اپنے گھر اُس کو
ُبلاؤں کیسے
کتنی یادوں کا
پری خانہ ہے
اپنے اِس گھر کو
جلاؤں کیسے
راشدؔ فاضلی
No comments:
Post a Comment