Thursday, 25 March 2021

Jab Mujhay jurm e muhabat ( Offenses will be forgiven Love )


غزل

جب  مجھے جُرمِ محبت کی معافی ہو گی

تب مری عمر اِرادوں کے منافی ہو گی


ہم پہ لازم ہے سدا اُن ہو صدائیں دینا

وہ پُکاریں گے تو یہ وعدہ خلافی ہو گی


اُس کے میخانے میں ہم بادہ پرستوں کے لیے

نہ ملا جام تو بس پیاس  ہی کافی ہو گی


ہم نے تیشے سے پہاڑوں کا  بھرم رکھا ہے

ورنہ اُن کے لیے اک آ ہ بھی کافی ہو گی


موت اپنی تو کئی بار مر چُکے ہیں ہم

اب ہمیں موت جو آئی تو اِضافی ہو گی


اپنے نقصان پہ یہ سوچ کے خوش ہوں عابدؔ

میرے نقصان سے اوروں کی تلافی ہو گی


عابدؔ بنوی



 

Wednesday, 24 March 2021

Lazim nahi kay ( He doesn't think of me )

غزل


لازم نہیں کہ اُس کو میرا خیال ہو

جو میرا حال ہے وہی اُس کا حال ہو


باتیں تو ہوں کچھ تو دِلوں کی خبر  ملے

آپس میں اپنے کچھ تو جواب وسَوال ہو


رہتے ہے آج جس میں جسے دیکھتے ہیں ہم

ممکن ہے یہ گزشتہ کا خواب و خیال ہو


سب شور شہرِ خاک کا ہے قرب ِآب سے

پانی نہ ہو تو شہر کا جینا مُحال ہو


معدوم ہوتی جاتی ہوئی شے ہے یہ جہاں

ہر چیز اِس کی جیسے  فنا کی مثال ہو


کوئی خبر خوشی کی کہیں سے ملے منیرؔ

اِن روزوشب میں ایسا بھی اک دِن کمال ہو


منیرؔ نیازی



 

Tuesday, 23 March 2021

Hisab e Umar ka ( The Account of Age )


غزل


حسابِ عمر کا اِتنا سا گوشوارا ہے

تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے


کسی چراغ میں ہم ہیں ، کسی کنول میں تم

کہیں جمال تمہارا ، کہیں ہمارا ہے


وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں

تمام عمر کی فُرقت ہمیں گوارا ہے


وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں

ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارہ ہے


عجب اُصول ہیں اِس کاروبارِ دُنیا کے

کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے


نجانے کب تھا ! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے

یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گُذارا ہے


یہ دو کنارے تو دریا کے ہوگئے ، ہم تم

مگر یہ کون ہے جو تیسرا کنارہ  ہے


امجد اسلام امجدؔ



 

Monday, 22 March 2021

Ghum ki Tasweer ( Picture of grief )


غزل


غم کی تصویر بن گیا ہوں میں

اُن کی توقیر بن گیا ہوں میں


خواب پنہاں تھے آپ کے جلوے

جن کی تعبیر بن گیا ہوں میں


آج ہستی ہے کیوں تبسم ریز

کس کی تقدیر بن گیا ہوں میں


آپ چُھپ چُھپ کے مسکراتے ہیں

وجہِ رشہیر بن گیا ہوں میں


جو بھی ہے ہم خیال ہے  میرا

حسنِ تحریر بن گیا ہوں میں


اب دُعاؤں کو ہے مری حاجت

لبِ تا ثیر  بن گیا ہوں میں


دم بخود ہیں شکیبؔ لوح و قلم

حُسنِ تدبیر  بن گیا ہوں میں


شکیبؔ جلالی




 

Friday, 19 March 2021

Ye Hum tasleem kartay hain ( We admit this )

نظم

یہ ہم تسلیم کرتے ہیں

تمہیں فُرصت نہیں ملتی

ہمارے واسطے تم کو

کوئی ساعت نہیں ملتی


ہماری سوچ کے محور

کبھی اِک پل سوچو تو

تمہیں ہم یاد کرتے ہیں

اور اِتنا یاد کرتے ہیں

کہ خود کو بھول جاتے ہیں

 


 

Thursday, 18 March 2021

Tunhi ko khass rakha hai ( Special to you )


تمہی کو خاص رکھا ہے تمہی مخصوص ٹھہرے ہو

جگہ اب  بھی وہی پہلی، عنا یت پہلے جیسی ہے


سُنو کیا خوف ہے تم کو اگرچہ لَوٹنا چاہو

تمہارے واسطے اب بھی رِعایت پہلے جیسی ہے


ابھی بھی مُنتظر ہوں میں،ابھی بھی تیری خواہش ہے

یہاں کچھ بھی نہیں بدلہ، رِ وایت پہلے جیسی ہے




 

Wednesday, 17 March 2021

Jamal e Yaar ko ( The Beauty of Lover )

غزل


جمالِ یار کو تصویر کرنے والے تھے

ہم ایک خواب کی تعبیر کرنے والے تھے


شبِ وصال  میں وہ لمحے گنوا دیئے ہم نے

جو دردِ ہجر کو اکسیر کرنے والے تھے


کہیں سے ٹوٹ گیا سلسلہ خیالوں کا

کئی محل ابھی تعمیر کرنے والے تھے


اور ایک دِن مجھے اُس شہر سے نکلنا پڑا

جہاں سبھی میری توقیر کرنے والے تھے


ہماری دربدری پر کسے تعجب ہے

ہم ایسے لوگ ہی تقصیر کرنے والے تھے


جو لمحے بیت گئے  ہیں تیری محبت میں

وہ لوحِ وقت پہ تحریر  کرنے والے تھے


چراغ لے کے اُنہیں ڈھونڈیئے زمانے میں

جو لوگ عشق کی توقیر کرنے والے تھے


وہی چراغ وفا کا  بجھا گئے آصفؔ

جو شہرِ خواب کی تعمیر کرنے والے تھے




 

Tuesday, 16 March 2021

Kabhi Kabhi Wo Mujhko ( Sometimes He Access )

غزل


کبھی کبھی وہ مجھ کواتنی رسائی دیتا ہے

میں اُس کو سوچتا ہوں وہ دکھائی دیتا ہے


نگاہیں ڈھونڈتی ہیں ہر طرف اُ س کو مگر

میں آنکھیں بند کرتا ہوں وہ مجھ کو دکھائی دیتا ہے


یہ عجیب فیصلہ ہے محبت کے جُرم کا

میں قید چاہتا  ہوں وہ مجھ کو رہائی دیتا ہے


وہ شخص خطا وار نہیں گر تو پھر کیوں

میں نہیں پوچھتا ہوں وہ مجھ کو صفائی دیتا ہے



 

Wednesday, 10 March 2021

Sehra tu bond bhi (The desert look thirsty )


غزل


صحرا تو بوندبھی  ترستا دکھائی دے

بادل سمندروں پہ برستا دکھائی دے


اِس شہر غم کو دیکھ کے دل ڈوبنے لگا

اپنے پہ ہی سہی کوئی ہنستا دکھائی دے


گر مَے نہیں تو زہر ہی لاؤ کہ اِس طرح

شاید کوئی نجات کا رستہ   دکھائی دے


اے چشمِ یار تو بھی کچھ دِل کا حال کھول

ہم کو تو یہ دیار نہ بستا دکھائی دے


جنسِ ہنر کا کون خریدار ہے فرازؔ

ہیرا، کہ پتھروں سے سستا دکھائی دے

احمد فرازؔ



 

Friday, 5 March 2021

Lakh dori ho ( A million miles away )


غزل


لاکھ دُوری ہو مگر عہد نبھاتے رہنا

جب بھی بارش ہو میرا سوگ مناتے رہنا


تم گئے ہو تو سرِ شام یہ عادت ٹھہری

بس کنارے پہ کھڑے ہاتھ ہلاتے رہنا


جانے اِس دِل کو یہ آداب کہاں سے آئے

اُس کی راہوں میں نگا ہوں کو بچھاتے رہنا


ایک مدّ ت دے یہ معمول ہوا ہے اب تو

آپ ہی روٹھنا اور آپ مناتے رہنا


تم کو معلوم ہے فرحتؔ کہ یہ پاگل پن ہے

دُور جاتے ہوئے لوگوں کو بُلاتے رہنا


فرحت عباس شاہ



 

Wednesday, 3 March 2021

Rog Aisay bhi gham e yaar say ( Grief in love from lover )


غزل


روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں

دَر سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں


عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے

بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں


پہلے پہلےہوس کی اک دُکان کھولتی ہے

پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں


بے بسی بھی کبھی قُربت کا سبب بنتی ہے

رُو نہ پائیں تو گلے یار سے لگ جاتے ہیں


کترنیں غم کی جو گلیوں میں اُڑی پھرتی ہیں

گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں


داغِ دامن کے ہوں دِل کے ہوں کہ چہرے کے

فرازؔ کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں


احمد فرازؔ 



 

Monday, 1 March 2021

Ohjhal sahi nigha say ( I am not overwhelmed )

غزل


اوجھل سہی نگاہ سے ڈُوبا نہیں ہوں میں

اِئے رات ہوشیار کہ ہارا نہیں ہوں میں


دَر پیش صبح وشام، یہی کشمکش ہے اب

اُس کا بنوں میں کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں


مجھ کو فرشتہ ہونے کا ،   دعویٰ نہیں مگر

جتنا بُرا سمجھتے ہو، اُتنا نہیں ہوں میں


اِس طرح پھیر پھیر کے باتیں نہ کیجئے

لہجے کا رُخ سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں


ممکن نہیں ہےمجھ سے یہ طرزِ مُنافقت

دنیا  تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں


امجدؔ تھی بھیڑ ایسی کہ  ، چلتے چلے گئے

گِرنے کا خوف ایسا تھا ٹھہرا نہیں ہوں میں


امجد اِسلام امجدؔ



 

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے