غزل
جب مجھے جُرمِ محبت کی معافی ہو گی
تب مری عمر
اِرادوں کے منافی ہو گی
ہم پہ لازم ہے
سدا اُن ہو صدائیں دینا
وہ پُکاریں گے
تو یہ وعدہ خلافی ہو گی
اُس کے میخانے
میں ہم بادہ پرستوں کے لیے
نہ ملا جام تو
بس پیاس ہی کافی ہو گی
ہم نے تیشے سے
پہاڑوں کا بھرم رکھا ہے
ورنہ اُن کے لیے
اک آ ہ بھی کافی ہو گی
موت اپنی تو کئی
بار مر چُکے ہیں ہم
اب ہمیں موت جو
آئی تو اِضافی ہو گی
اپنے نقصان پہ
یہ سوچ کے خوش ہوں عابدؔ
میرے نقصان سے
اوروں کی تلافی ہو گی
عابدؔ بنوی