Wednesday, 3 March 2021

Rog Aisay bhi gham e yaar say ( Grief in love from lover )


غزل


روگ ایسے بھی غمِ یار سے لگ جاتے ہیں

دَر سے اُٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں


عشق آغاز میں ہلکی سی خلش رکھتا ہے

بعد میں سینکڑوں آزار سے لگ جاتے ہیں


پہلے پہلےہوس کی اک دُکان کھولتی ہے

پھر تو بازار کے بازار سے لگ جاتے ہیں


بے بسی بھی کبھی قُربت کا سبب بنتی ہے

رُو نہ پائیں تو گلے یار سے لگ جاتے ہیں


کترنیں غم کی جو گلیوں میں اُڑی پھرتی ہیں

گھر میں لے آؤ تو انبار سے لگ جاتے ہیں


داغِ دامن کے ہوں دِل کے ہوں کہ چہرے کے

فرازؔ کچھ نشاں عمر کی رفتار سے لگ جاتے ہیں


احمد فرازؔ 



 

No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے