Tuesday, 23 March 2021

Hisab e Umar ka ( The Account of Age )


غزل


حسابِ عمر کا اِتنا سا گوشوارا ہے

تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے


کسی چراغ میں ہم ہیں ، کسی کنول میں تم

کہیں جمال تمہارا ، کہیں ہمارا ہے


وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں

تمام عمر کی فُرقت ہمیں گوارا ہے


وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں

ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارہ ہے


عجب اُصول ہیں اِس کاروبارِ دُنیا کے

کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے


نجانے کب تھا ! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے

یہ وقت پہلے بھی ہم نے کبھی گُذارا ہے


یہ دو کنارے تو دریا کے ہوگئے ، ہم تم

مگر یہ کون ہے جو تیسرا کنارہ  ہے


امجد اسلام امجدؔ



 

No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے