غزل
صحرا تو بوندبھی
ترستا دکھائی دے
بادل سمندروں پہ
برستا دکھائی دے
اِس شہر غم کو
دیکھ کے دل ڈوبنے لگا
اپنے پہ ہی سہی
کوئی ہنستا دکھائی دے
گر مَے نہیں تو
زہر ہی لاؤ کہ اِس طرح
شاید کوئی نجات
کا رستہ دکھائی دے
اے چشمِ یار تو
بھی کچھ دِل کا حال کھول
ہم کو تو یہ
دیار نہ بستا دکھائی دے
جنسِ ہنر کا کون
خریدار ہے فرازؔ
ہیرا، کہ پتھروں
سے سستا دکھائی دے
احمد فرازؔ
No comments:
Post a Comment