غزل
لاکھ دُوری ہو
مگر عہد نبھاتے رہنا
جب بھی بارش ہو
میرا سوگ مناتے رہنا
تم گئے ہو تو
سرِ شام یہ عادت ٹھہری
بس کنارے پہ
کھڑے ہاتھ ہلاتے رہنا
جانے اِس دِل کو
یہ آداب کہاں سے آئے
اُس کی راہوں
میں نگا ہوں کو بچھاتے رہنا
ایک مدّ ت دے یہ
معمول ہوا ہے اب تو
آپ ہی روٹھنا
اور آپ مناتے رہنا
تم کو معلوم ہے
فرحتؔ کہ یہ پاگل پن ہے
دُور جاتے ہوئے
لوگوں کو بُلاتے رہنا
فرحت عباس شاہ
No comments:
Post a Comment