غزل
جمالِ یار کو
تصویر کرنے والے تھے
ہم ایک خواب کی
تعبیر کرنے والے تھے
شبِ وصال میں وہ لمحے گنوا دیئے ہم نے
جو دردِ ہجر کو
اکسیر کرنے والے تھے
کہیں سے ٹوٹ گیا
سلسلہ خیالوں کا
کئی محل ابھی
تعمیر کرنے والے تھے
اور ایک دِن
مجھے اُس شہر سے نکلنا پڑا
جہاں سبھی میری
توقیر کرنے والے تھے
ہماری دربدری پر
کسے تعجب ہے
ہم ایسے لوگ ہی
تقصیر کرنے والے تھے
جو لمحے بیت
گئے ہیں تیری محبت میں
وہ لوحِ وقت پہ
تحریر کرنے والے تھے
چراغ لے کے
اُنہیں ڈھونڈیئے زمانے میں
جو لوگ عشق کی
توقیر کرنے والے تھے
وہی چراغ وفا
کا بجھا گئے آصفؔ
جو شہرِ خواب کی
تعمیر کرنے والے تھے
No comments:
Post a Comment