غزل
غم کی تصویر بن
گیا ہوں میں
اُن کی توقیر بن
گیا ہوں میں
خواب پنہاں تھے
آپ کے جلوے
جن کی تعبیر بن
گیا ہوں میں
آج ہستی ہے کیوں
تبسم ریز
کس کی تقدیر بن
گیا ہوں میں
آپ چُھپ چُھپ کے
مسکراتے ہیں
وجہِ رشہیر بن
گیا ہوں میں
جو بھی ہے ہم
خیال ہے میرا
حسنِ تحریر بن
گیا ہوں میں
اب دُعاؤں کو ہے
مری حاجت
لبِ تا ثیر بن گیا ہوں میں
دم بخود ہیں
شکیبؔ لوح و قلم
حُسنِ
تدبیر بن گیا ہوں میں
شکیبؔ جلالی
No comments:
Post a Comment