غزل
اوجھل سہی نگاہ
سے ڈُوبا نہیں ہوں میں
اِئے رات ہوشیار
کہ ہارا نہیں ہوں میں
دَر پیش صبح
وشام، یہی کشمکش ہے اب
اُس کا بنوں میں
کیسے کہ اپنا نہیں ہوں میں
مجھ کو فرشتہ
ہونے کا ، دعویٰ نہیں مگر
جتنا بُرا
سمجھتے ہو، اُتنا نہیں ہوں میں
اِس طرح پھیر
پھیر کے باتیں نہ کیجئے
لہجے کا رُخ
سمجھتا ہوں بچہ نہیں ہوں میں
ممکن نہیں ہےمجھ
سے یہ طرزِ مُنافقت
دنیا تیرے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں
امجدؔ تھی بھیڑ
ایسی کہ ، چلتے چلے گئے
گِرنے کا خوف
ایسا تھا ٹھہرا نہیں ہوں میں
امجد اِسلام
امجدؔ
No comments:
Post a Comment