Saturday, 29 May 2021

Dasht main piyas ( Quenching thirst in the desert )

غزل

دشت میں پیاس بجھاتے ہو ئےمر جاتے ہیں

ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں


ہم پہ سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں


گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا

ہم تیرے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں


کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چُپ چاپ

ہم تو دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں


اُن کے بھی قتل کا الزام   ہمارے سر ہے

جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں


یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن

لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں


ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ

جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں


عباس تابشؔ




 

Wednesday, 26 May 2021

Sakoon dard ko gham ko ( Makes grief a medicine )

غزل

سکون درد کو، غم کو دوا بناتی ہے

یہ شاعری ہے، عجب معجزے دکھاتی ہے


کسی کے پاؤں کی آہٹ، کسی کی سرگوشی

ہوائے ہجر ، صدائیں بہت سُناتی ہے


بدلنے لگتی ہے ہر گام پر سراب کی صورت

ہوائے دشت، بہت صبر آزماتی ہے


اُسی سے شکوہ بھی رہتا ہے تلخ گوئی کا

کہ جس سے اپنی طبعیت قرار پاتی ہے


تمہاری مجھ سے ملاقات بھی اچانک تھی

تمہارا مل کے بچھڑنا بھی حادثاتی ہے


کہیں یہ کوئی نئی سازش ِہوا تو نہیں

کہ کچھ چراغ بچاتی ہے ، کچھ بُجھاتی ہے


اعتبار ساجدؔ




 

Monday, 24 May 2021

Wo day raha hai dillasay ( He gave me Consolation )

غزل

 وہ دےر ہا ہے دلاسےتو  عمر بھر کے مجھے

بچھڑ نہ جائے کہیں پھر اُداس کر کے مجھے


جہاں نہ تو نہ تیری یاد کے قدم ہوں گے

ڈرا رہے ہیں وہی مرحلے سفر کے مجھے


ہوائے دشت مجھے اب تو اجنبی نہ سمجھ!

کہ اب تو بھول گئے راستے بھی گھر کے مجھے


یہ چند اشک بھی تیرے ہیں شامِ غم لیکن

اُجالنے ہیں ابھی خد و خال سحر کے مجھے


دِل تباہ تیرے غم کو ٹالنے کے لیے

سُنا رہا ہے فسانے اِدھر اُدھر کے مجھے


قبائے زخم بدن پر سجا کے نکلا ہوں

وہ اب ملا بھی تو دیکھے گا آنکھ بھر کے مجھے


کچھ اِس لیے بھی میں اُس سے بچھڑ گیا محسنؔ

وہ دُور ُور سے دیکھے ٹہر ٹہر کے مجھے


محسنؔ نقوی



 

Sunday, 23 May 2021

Phir tera ziker dill ( Your memory take my heart )

غزل

پھر تیرا ذکر دِل سنبھال گیا

ایک ہی پل میں سب ملال گیا


ہو لیے ہم بھی اُس طرف جاناں

جس طرف بھی تیرا خیال گیا


آج پھر تیری یاد مانگی تھی

آج پھر وقت ہم کو ٹال گیا


تو دسمبر کی بات کرتا ہے

اور ہمارا تو سارا سال گیا


تیرا ہوتا تو پھٹ گیا ہوتا

میرا دِل تھا جو غم کو پال گیا


کون تھا وہ کہاں سے آیا تھا

ہم کو کن چکروں میں ڈال گیا





 

Saturday, 22 May 2021

Roya hoon teri yaad main ( I cry in your memory )

غزل

رویا ہوں تیری یاد میں دِن رات مُسلسل

اَیسے کبھی ہوتی نہیں برسات مُسلسل


کانٹے کی طرح ہوں میں رقیبوں کی نظر میں

رہتے ہیں میری گھات میں  چھ سات  مُسلسل


چہرے کو نئے  طورسے سجاتے ہیں وہ ہر روز

بنتے ہیں میری موت کے آلات مُسلسل


اِجلاس کا عنوان ہے اِخلاص و مرّوت

بَد خوئی میں مصروف ہیں حضرات  مُسلسل


ہم نے تو کوئی چیز بھی ایجاد نہیں کی

آتے ہیں نظر اُن کے کمالات مُسلسل 




 

Friday, 21 May 2021

Kuch tu hawa bhi sard dhi ( Some of the air was cold )

غزل

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی، کچھ تھا تیرا خیال بھی

دِل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی


بات وہ آدھی رات کی، رات وہ پورے چاند کی

چاند بھی عین چیت کا اُس پہ تیرا جمال بھی


سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو ایسے دیکھتا

اِک دفعہ تو رُک گئےگردشِ ماہ و سال بھی


اُس کو نہ پا سکے  تھے جب دِل کا عجب حال تھا

اب جو پلٹ کے دیکھیے،بات تھی کچھ مُحال بھی


میری طلب تھا ایک شخص،وہ جو ملا نہیں تو پھر

ہاتھ دُعا سے یوں گرا، بھول گیا سوال بھی


اُس کی ہی بازوں  میں اور اُس کو سوچتے رہے

جسم کی خواہشوں پہ تھے رُوح کے اور جال بھی


پروین شاکر



 

Thursday, 20 May 2021

Na socha tha dill ( Didn't think of it before )

غزل

نہ سوچا تھا یہ دِل لگانے سے پہلے

کہ ٹوٹے گا دِل لگانے سے پہلے


اُمیدوں کا سورج نہ چمکا نہ ڈوبا

گہن پڑ گیا جگمگانے سے پہلے


اگر غم اُٹھا نا تھا قسمت میں اپنی

خوشی کیوں ملی غم اُٹھانے سے پہلے


کہو بجلیوں سے نہ دِل کو جلائیں

مجھے پھونک دیں گھر جلانے سے پہلے


شکیلؔ بدایونی



 

Wednesday, 19 May 2021

Teray fraaq kay lumhay ( Your moment of separation )


غزل

تیرے فراق کے لمحے شمار کرتے ہوئے

بکھر گئے ہیں تیرا انتظار کرتے ہوئے


تمہیں خبر ہی نہیں ہے کہ کوئی ٹوٹ گیا

محبتوں کو بہت پائیدار کرتے ہوئے


میں مُسکراتا ہوا آئینے میں اُبھروں گا

وہ رُو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئے


وہ کہہ رہی تھی سمندر نہیں ہیں آنکھیں ہیں

میں اُن میں ڈوب گیا اعتبار  کرتے ہوئے


بھنور جو مجھ میں پڑے ہیں وہ میں ہی جانتا ہوں

تمہارے ہجر کے دریا کو پار کرتے ہوئے


وصی ؔ شاہ



 

Tuesday, 18 May 2021

Chura kay lay gaya ( The stolen wine )

غزل

چُرا کے لے گیا جام اور پیاس چھوڑگیا

وہ ایک شخص مجھ کو اُداس چھوڑگیا


جو میرے جسم کی چادر بنا رہا برسوں

نہ جانے کیوں  مجھے بے لباس  چھوڑگیا


وہ ساتھ لے گیا ساری محبتیں اپنی

ذرا سا درد میرے دِل کے پاس چھوڑگیا


سُجھائی دیتا نہیں دُور تک کوئی منظر

وہ ایک دُھند میرے آس پاس چھوڑگیا


غزل سجاؤں  قتیلؔ اب اُسی کی باتوں سے

وہ مجھ میں اپنے سُخن کی مٹھاس  چھوڑگیا


قتیل ؔ شفائی


 

Sunday, 16 May 2021

Ajnabi shaher kay Ajnabi Rastay ( Stranger streets of a strange city )

غزل

اجنبی شہر کا اجنبی راستے ،

میری تنہائی پر مسکراتے رہے

میں بہت دیر تک یونہی چلتا رہا،

 تم بہت یاد آتے رہے


زہر ملتا رہا، زہر پیتے رہے،

روز مرتے رہے، روز جیتے رہے

زندگی بھی ہمیں آزماتی رہی،

اور ہم بھی اُسے آزماتے رہے


زخم جب کوئی  ذہن و دِل پر لگا،

زندگی کی طرف اِک  دریچہ کُھلا

ہم بھی  گویا کسی ساز کے تار  ہیں،

چوٹ کھاتے رہے ، گنگناتے رہے


سخت حالات کے تیز طوفان میں،

 گھِرگیا تھا میرا جنوںِ وفا

ہم چراغِ تمنا جلاتے رہے،

 وہ چراغِ تمنا بجھاتے رہے


کل کچھ ایسا ہوا میں بہت تھک گیا،

اِس لئے سُن کے بھی اَن سُنی کر گیا

کتنی یادوں کے بھٹکے ہوئے کارواں،

دِل کے زخموں کے در کھٹکھا تے رہے 





 

Saturday, 15 May 2021

raat pheili hai tere sumahi ( The night is over your head )

غزل

رات پھیلی ہے تیرے سُرمئی آنچل کی طرح

چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے، پاگل کی طرح


خشک پتوں کی طرح ، لوگ اُڑے جاتے ہیں

شہر  بھی اب نظر آتا ہے ، جنگل کی طرح


پھر  خیالوں  میں تیرےقُرب کی خوشبو جاگی

پھر برسنے لگی آنکھیں میری، بادل  کی طرح


بے وفاؤں سے وفا کرکے، گزاری ہے حیات

میں برستا رہا ویرانوں میں ، بادل کی طرح


کلیم عثمانی




 

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے