غزل
یہ
بات کہاں رات کی رانی میں ملے گی
خوشبوِ
وفا لوک کہانی میں ملے گی
لاتے
نہیں لب پر جسے حالات کے ڈر سے
ہاں
بات وہ اشکوں کی روانی میں ملے گی
لفظوں
کی حلاوت کسی تحر یر میں ڈھونڈو
لہجے
کی کھنک شعلہ بیانی میں ملے گی
کردار
کی عظمت ہوکہ سچائی کی حُرمت
ہر
زندہ جاوید کہانی میں ملے گی
اشکوں
کا بڑا ربط ہے گہرا میرے دل سے
رنگت
بھی لہو کی اسی پانی میں ملے گی
وہ
وار کبھی دوستوں جیسا نہیں کر تا
ایک
یہ یہی صفت دشمنِ جانی میں ملے گی
گھر
چھوڑ کے جاتے نہیں خود اپنا پرندے
سازش
کوئی اس نقل مقا نی میں ملے گی
ہو
تے ہیں تقاضے نئے ہر عہد کے جوؔہر
شوخئِ
سخن عہدِ جوانی میں ملے گی
No comments:
Post a Comment