غزل
کوچہ٫ ِ ِ دلدار کی
باتیں کریں
رونقِ بازار کی باتیں
کریں
میکدہ میں مل کے ساقی
سے سبھی
مستیِ میخوار کی باتیں
کریں
باغ میں جا کر گل
وبُلبل سے ہم
ربطِ گل اور خار کی باتیں
کریں
پھر نہ بچھڑیں گے
کبھی بھی عمر بھر
وصل کے اقرار کی باتیں
کریں
جو منوّر ہوہم ایسی
بزم میں
صاحبِ انوار کی باتیں
کریں
میرے آگے کرتے ہوکیوں
ذکرِ غیر
مجھ سے میرے یار کی باتیں
کریں
کیوں نہ ہو ہر دم صوفی روشن ضمیر
طیبّہ کے سردار کی باتیں
کریں
صوفی
No comments:
Post a Comment