غزل
مجھے راستے میں پڑا ہوا ،ایک اجنبی کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے
لکھا ہوا، کہیں آنسووں سے مٹا ہوا
مجھے ہمسفر بھی
ملا کوئی، ستم ظریف میری طرح
کئی منزلوں کا
تھکا ہوا، کہیں راستوں کالُٹا ہوا
مجھے اُس کا کوئی بھی حق نہیں،کہ میں شریکِ بزمِ
خلوص ہوں
نہ میرے پاس
کوئی نقاب ہے، نہ کچھ آستین میں چُھپا ہوا
یہ جو سر جھکا
کے گذر گئے، میرے سامنے سے ابھی ابھی
میرے اپنے شہر
کے لوگ تھے ، میرے گھر سے گھر تھا ملا ہوا
مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے،یہ خود اپنے دل سے پوچھیئے
میری زندگی کی
کتاب کا، ورق ورق ہے کھلا ہوا
مجھے اپنے ضبط
پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
میری آنکھ کیسے
چھلک گئی، مجھے غم ہے یہ بُرا ہوا
میری زندگی کے چراغ کا ، یہ مزاج کچھ نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی
تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی
دُشمنِ جاں ملا، وہ پختہ جان ِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا وار خطا ہوا
Add caption |
No comments:
Post a Comment