غزل
عشقِ جاناں میں
اپنا یہ حال کردیا
اُس کو اتنا
چاہا خود کو بےحال کردیا
سنگِ مر مر سا
تراشا گل نشین بدن
بنا کر اُس کو
خُدا نے کمال کر دیا
وہ لب کشا ہو تو
پھول جھڑتے ہیں
حُسن والوں میں
اُس نے وبال کردیا
جو بھی دیکھے
اُسے بس دیکھتا ہی رہے
ناظر کی نظر میں
ایسا جال کردیا
چھپائیں چہرہ جو
گیسو کبھی اُس کا
چاند بھی شرما
کے کہے جینا محال کردیا
وہ ملا ہے تو
میں شکر بجا لاتا ہوں
میری زندگی کو اُس نے بے مثال کردیا
No comments:
Post a Comment