غزل
یار بھی راہ کی
دیوار سمجھتے ہیں مجھے
میں سمجھتا تھا
میرے یار سمجھتے ہیں مجھے
کیا خبر کل یہی
تابوت مِرا بن جائے
آپ جس تخت کا
حقدار سمجھتے ہیں مجھے
میں تو چُپ ہوں
اندر سے بہت خالی ہوں
اور کچھ لوگ پُر اسرار سمجھتے ہیں مجھے
میں بدلتے ہوئے
حالات میں ڈھل جاتا ہوں
دیکھنے والے
فنکار سمجھتے ہیں مجھے
وہ جو اُس پار
ہیں اُن کے لئےاِس پار ہوں میں
وہ جو اِس پار
ہیں اُس پار سمجھتے ہیں مجھے
نیک لوگوں میں
مجھے نِیک گنا جاتا ہے
اور گناہگار ،
گناہگار سمجھتے ہیں مجھے
جرم یہ ہے کہ
اندھوں میں ہوں آنکھوں والا
اور سزا یہ ہے
کہ سردار سمجھتے ہیں مجھے
لاش کی طرح
سرِ آب ہوں میں اور شاہدؔ
ڈوبنے والے مدد
گار سمجھتے ہیں مجھے
شاہدؔ ذکی
No comments:
Post a Comment