غزل
اُداسیوں کایہ
موسم بدل بھی سکتا تھا
وہ چاہتا ،تو
مِرے ساتھ چل بھی سکتا تھا
وہ شخص !تونے
جسے چھوڑنے میں جلدی کی
ترے مزاج کے
سانچے میں ڈھل بھی سکتا تھا
وہ جلد باز !
خفا ہو کے چل دیا ، ورنہ
تنازعات کا کچھ
حل نکل بھی سکتا تھا
اَنا نے ہاتھ
اُٹھانے نہیں دیا، ورنہ
مِری دُعا سے وہ
پتھر پگھل بھی سکتا تھا
تمام عمر تیرا
اِنتظار رہا محسنؔ
یہ اور بات کہ
راستہ بدل بھی سکتا تھا
محسنؔ نقوی
No comments:
Post a Comment