نظم
یہ شیشے یہ
سپنےیہ رشتے یہ دھاگے
کسے کیا خبر ہے
کہاں ٹوٹ جائیں
محبت کے دریا
میں تنکے وفا کے
نہ جانے یہ کس
موڑ پر ڈوب جائیں
عجب دل کی بستی
عجب دِل کی وادی
ہر ایک موڑ موسم
نئی خواہشوں کا
لگائے ہیں ہم
نےبھی سپنوں کے پودے
مگر کیا بھروسہ
یہاں بارشوں کا
مُرادوں کی منزل
کے سپنوں میں کھوئے
محبت کی راہوں
پہ ہم چل پڑے تھے
ذرا دور چل کے
جب آنکھیں کھلی تو
کڑی دھوپ میں ہم
اکیلے کھڑے تھے
جنہیں دِل سے
چاہا جنہیں دِل سے پوجا
نظر آرہے ہیں
وہی اجنبی سے
روایت ہے شاید
یہ صدیوں پُرانی
شکایت نہیں ہے
کوئی زندگی سے