غزل
عشق میں ایسا سُرور رکھا ہے
مر کے
جینا ضرور رکھا ہے
چڑھ گیا عشق میں جوسولی پر
نام اُس کا منصور رکھا ہے
دل بنا یا ہے پاک کس کے لیے
آپ کی خَاطر حُضور رکھا ہے
اُس کو مومن میں کہوں کیسے
جس کے دِل میں غُرور رکھا
ہے
آپ کے دیدار کے لئے رب نے
میری آنکھوں میں نور رکھا
ہے
جن کو آتے ہیں آدابِ کلامِ
عشق
اُن کے قدموں میں طور رکھا
ہے
جن کی قربت کو دل ترستا ہے
اُن کو ہم سے دُور رکھا ہے
وہ کیا جانے دیوانگی کامزہ
جن میں عقل و شعور رکھا ہے
ایسےدیوانے دیکھےہیں کہیں عاؔدل
غم کو پی کربھی مسرور رکھا ہے