Saturday, 13 January 2018

Khamosh Lab Hain


غزل
 خاموش لب ہیں جھکی ہیں پلکیں
دِلوں میں اُلف نیٔی نیٔی ہے

ابھی تکلّف ہے گفتگو میں
ابھی محبت نیٔی نیٔی ہے

ابھی نہ آئیگی نیند تم کو
ابھی نہ ہم کو سکون ملے گا

ابھی تو دھڑکے گا دل زیادہ
ابھی یہ چاہت نیٔی نیٔی ہے

بہار کا آج پہلا دن ہے
چلو چمن میں ٹہل کے آئیں

فضا میں خوشبو  نیٔی نیٔی ہے
گلوں میں رنگت نیٔی نیٔی ہے

جو خاندانی رئیس ہیں وہ
مزاج رکھتے ہیں نرم اپنا

تمھارا لہجہ بتا رہا ہے
تمھاری   دولت نیٔی نیٔی ہے

زرا سا  قدرت نے کیا نوازا
 آ کے بیٹھے ہو پہلی صف میں

ابھی سے اُڑنے لگے ہوا میں
ابھی یہ شہرت نیٔی نیٔی ہے

شبینہ ادیب کانپوری









No comments:

Post a Comment

Poor seller

مفلس جو اپنے تن کی قبا بیچ رہا ہے واعظ بھی تو ممبر پے دعا بیچ رہا ہے دونوں کو درپیش مسائل اپنے شکم کے وہ اپنی خودی اپنا خدا بیچ رہا ہے