ہر جلوے میں محبوب کا جلوہ
نظر آئے
جاؤں میں کہیں بھی تیرا
سایہ نظر آئے
وُسعت میری نظر کو عادؔل
اتنی عطا ہو
دیکھوں میں خود کوتو تیرا سراپا نظر آۓ
@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@@
بچھڑا ہے جو اِک بارتوملتے نہیں دیکھا
اِس زخم کوہم نے کبھی سلتے نہیں دیکھا
اِک بار جسے چاٹ گئی دُھوپ کی خواہش
پھر شاخ پہ اُس پھول کو کھلتے نہیں دیکھا
کس طرح مری روح کوہری کر گیا آخر
وہ زہر جسے جسم میں گھلتے نہیں دیکھا
پروین شاکرؔ
No comments:
Post a Comment