آنسو کی محفل
مت بہاؤ آنسو بے قدروں کے
لئے
جو قدر کرتے ہیں وہ رونے
نہیں دیتے
@@@@@@@@
چپکے چپکے رات دن آنسو
بہانا یاد ہے
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ
زمانہ یاد ہے
@@@@@@@
صرف چہرے کی اُداسی سے بھر
آئے آنسو
دل کا عالم تو ابھی تک آپ
نے دیکھا ہی نہیں
@@@@@@@@
روح تک کو نچوڑ دیتا ہے
وہ آنسو جو آنکھ سے نکل
نہیں پاتا
@@@@@@
ضبط غم اِس قدر آساں نہیں
فرازؔ
آگ ہوتے ہیں وہ آنسو جو
پیئے جاتے ہیں
@@@@@@
کیا کریں اب تو یہ لفظوں میں
عیاں ہوتے ہیں
ایک مدّت سے جو ہم نے تھے چُھپائے
آنسو
@@@@@@
آنسو اُٹھا لیتے ہیں میرے
غموں کا بوجھ
یہ وہ دوست ہیں جو احسان
جتایا نہیں کرتے
@@@@@@@
لکھنا تھا کہ خوش ہوں تیرے
بغیر بھی
آنسو مگر قلم سے پہلے ہی
گِر گیا
@@@@@
وہ اشک بن کے میری چشمِ تر
میں رہتاہے
عجیب شخص ہے پانی کے گھر
میں رہتا ہے
@@@@@
راہ تکتےتکتے جب تھک گئیں
آنکھیں میری
پھر تجھے ڈھونڈنے میری آنکھ
سے آنسو نکلا
@@@@@
آنسو بہا بہا کےبھی ہوتے
نہیں کم
کتنی امیر ہوتی ہیں آنکھیں غریب
کی
@@@@@@
ابھی سے تیری آنکھوں سےنکل
آئے آنسو
ابھی تومیں نےچھیڑی ہی نہیں
داستانِ زندگی
No comments:
Post a Comment