غزل
یاد آتا ہے روزوشب کوئی
ہم سے رُوٹھا ہے بے سبب
کوئی
جب تجھے پہلی بار دیکھا تھا
وہ بھی تھا موسم طرب کوئی
کچھ خبر لے کہ تیری محفل سے
دُور بیٹھا ہے جاں بلب کوئی
نہ غمِ زندگی نہ دردِ فراق
دل میں یونہی سی ہے طلب
کوئی
یاد آتی ہیں دور کی باتیں
پیا رسے دیکھتا ہے جب کوئی
چوٹ کھائی ہے بارہا لیکن
آج تو درد ہے عجب کوئی
جن کو مٹنا تھا مٹ چُکے
ناؔصر
اُن کو رُسوا نہ کرے اب
کوئی
ناؔصر کاظمی
No comments:
Post a Comment