غزل
جو چاہتے ہو مُصیبت میں
حوصلہ رکھنا
تو دل میں یادِ شہیدِ کربلا
رکھنا
نہ کوئی خط، نہ کوئی
پنکھڑی، مُور کا پر
تو پھر بتاؤ کتابوں میں اور کیا رکھنا
جو آشنا نہ ہوا لذتِ عطا سے
کبھی
پھر اُس کے ہاتھ پہ دستِ
سوال کیا رکھنا
وہ جیسے کانچ کے ٹکڑوں پہ
چل کے آیا ہو
وہ کہہ رہا تھا کہ مخمل پہ
پاؤں کیا رکھنا
یہاں کی خاک کو دامن میں
باندھ کر لے جا
بچھڑنے والےزمیں سے تو
واسطہ رکھنا
زمانہ ڈھوڈ نہ لے اپنی
خلوتوں کے پتے
اب ا پنے بیچ ضروری ہے
فاصلہ رکھنا
مٹا کے رکھ دیئے توسیع شہر
نے گلشن
تو اپنے کمرے میں گلدان ہی
سجا رکھنا
رشیدؔ جسم کی آلودگی کا دور
ہے یہ
تو اپنی روح کی پاکیزگی کو بچا رکھنا
رشیدؔ اندوری
No comments:
Post a Comment