غزل
ہم بھلا کیا لیں گے اُن کے
غم سے گھبرانے کا نام
عشق ہے ہر قدم پہ ٹھوکریں
کھانے کا نام
زندگی کی عظمتوں سے وہ ابھی
واقف نہیں
لے رہے ہیں غم سے گھبرا کر
جو مر جانے کا نام
مجھ سے بڑھ کر کون ہوگا
واقفِ رازِ حیات
زندگی ہے گر مسلسل ٹھوکریں
کھانے کا نام
پا گیا غم کا مُسافر
اپنی منزل کا نشان
آگیا اُن کی زُباں پر آج
دیوانے کا نام
ہے اب اُن رِندوں کے
ہاتھوں میں نظامِ میکدہ
جو ہمیشہ سے ڈبوتے آئے
میخانے کا نام
کس جگہ جا کر بنائیں آشیاں
ہم اے رشیدؔ
لوگ گلشن کو بھی اب دیتے
ہیں ویرانے کا نام
No comments:
Post a Comment