مُحبت
یہ واجباتِ عشق ہم ہی پہ
فرض کیوں
وہ بھی ادا کرے، مُحبت اُسے
بھی تھی
@@@@@
مُحبت میں عداو ت نہیں ہوتی
چاہت میں شکایت نہیں ہوتی
بات ساری ہے اعتبار کی عادلؔ
ہر بات کی وضاحت
نہیں ہوتی
@@@@@
کیا بُرا ہے کہ میں اقرارِ
مُحبت کر لوں
لوگ ویسے بھی گنہگار سمجھتے
ہیں مجھے
@@@@@
وہی محسوس کرتے ہیں سزا
دردِ محبت کی
جو اپنی ذات سے بڑھ کر کسی
کوپیار کرتے ہیں
@@@@@
آتا نہیں دل میں رہائی کا
تصور
بہت عجیب جُرمِ محبت کی سزا
ہے
@@@@@
ہم نے تو محبت چھوڑ دی لیکن
محبت نے ہم کو کہیں نہ
چھوڑا
@@@@@
مجھے اِس حال تک پہنچا دیا
مُحبت نے
ستم کیسا بھی ہو تجھ سے
کوئی شکوہ نہیں ہوتا
@@@@@
اب وہ مُلاقات میں گرمئی جذبات
کہاں
اب تو رکھنے وہ محبت کا
بھرم آتے ہیں
@@@@@
کچھ خاص دلوں کو عشق کے
الہام ہوتے ہیں
مُحبت مُعجزہ ہے، مُعجزے کب
عام ہوتے ہیں
No comments:
Post a Comment